لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔
لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔

16 دسمبر 2020ء کو اس پاکستان کی تقسیم کو 49 سال ہوگئے ہیں، جو 1947ء میں وجود میں آیا تھا۔ برِصغیر کی تقسیم سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک کے 24 برس کے دوران اس علیحدگی کی وجہ بننے والے عوامل کو 1971ء کے بعد مختلف جہتوں سے دیکھا گیا۔ لیکن اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار ضرور تھا۔

جب کسی قومی ریاست میں خانہ جنگی پھوٹ پڑتی ہے اور اگر اس کے نتیجے میں ملک نہ بھی ٹوٹے تب بھی اس کی وجوہات اور نتائج کو ریاست کے مختلف طبقے مختلف نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے امریکا کی مثال لے لیں جہاں 1861ء سے 1865ء تک خانہ جنگی جاری رہی، لیکن اب 155 سال گزرنے کے بعد بھی وہاں تاریخ کے بارے میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔

اسی وجہ سے 2020ء میں پاکستان میں بھی اتفاق رائے نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم جس سانحے سے گزرے ہیں وہ بہت شدید ہے۔ امریکی خانہ جنگی کے نتائج کے برعکس پاکستان کا اصل ڈھانچہ تبدیل ہوگیا۔ لیکن وہ اصل ڈھانچہ تھا ہی غیر مناسب۔ شاید ہی کسی قومی ریاست کا ڈھانچہ اتنا نازک ہو کہ جس کے دونوں بازوؤں کے درمیان اک ہزار میل تک دشمن ملک موجود ہو۔ امریکا کے برعکس پاکستان کے اس دشمن پڑوسی ملک نے 21 نومبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں داخل ہوکر اس علیحدگی میں اپنا عملی کردار ادا کیا۔

اس سانحے پر پاکستان کا سرکاری مؤقف تو یہی ہے کہ پاکستان کو اس پر شدید افسوس ہے، لیکن اُس سال کے واقعات پر نظرثانی اور بنگالیوں پر علیحدگی پسند ہونے اور بھارتی ایجنٹ ہونے جیسے الزامات پر مبنی کڑوے سچ کو تسلیم کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

یکم مارچ 1971ء کے بعد سے غیر بنگالیوں کے خلاف بھی ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اس ناخوشگوار ماضی کو بھلا کر مستقبل پر توجہ دی جائے کیونکہ ذمہ داری اور احتساب کی بحث کو دوبارہ زندہ کرنے سے مزید تفریق جنم لے گی۔

لیکن تدریس، ذرائع ابلاغ، سیاست اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ 1971ء میں ہونے والی قتل و غارت پر پاکستان کو بنگلا دیش سے معافی مانگنی چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پھر جنرل مشرف کی جانب سے کیے جانے والے دورہ بنگلا دیش میں ان دونوں کی جانب سے افسوس کا اظہار ناکافی تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب بنگلا دیش کے قیام کے تیسرے ہی سال یعنی جون 1974ء میں وزیرِاعظم بھٹو نے بنگلا دیش کا دورہ کیا تو ان کا پُرجوش استقبال ہوا۔ یہ پُرجوش استقبال اس وجہ سے قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے لوگ انہیں 1971ء میں ہونے والے سانحے کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں۔

اس وقت بنگلا دیش میں موجود بھارتی ہائی کمشنر جے این ڈکشٹ نے اس وقت کا آنکھوں دیکھا حال اپنی کتاب ‘لبریشن اینڈ بیونڈ: انڈو-بنگلادیش ریلیشنز‘ میں لکھا ہے۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ بھٹو کے استقبال کے دوران بھارت اور شیخ مجیب کے خلاف سڑکوں پر نعرے لگ رہے تھے۔ اسی طرح عوام کی جانب سے ان کی گاڑی پر لگا بھارتی جھنڈا بھی توڑنے کی کوشش کی گئی۔

بہرحال گزشتہ 10 سالوں میں عوامی لیگ نے پاک فوج کے خلاف بیانیہ تشکیل دینے کے لیے خوب سرمایہ کاری کی ہے۔ کچھ افراد پر پاک فوج کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرکے اور دکھاوے کی عدالتی کارروائی کے بعد پھانسیاں دے دی گئیں۔ اس کے علاوہ متعصبانہ نظریے کا پرچار کرکے بنگلادیشی عوام کی 2 نسلوں میں پاکستان کے خلاف تعصب بھر دیا گیا ہے۔

2021ء پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ 1971ء کے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اس سچائی کو بھی دہرایا جاسکتا ہے کہ یہ تنازعہ بنگالی عوام پر حملہ نہیں بلکہ قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش تھی۔

نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی (این ڈی یو) جیسے ادارے حالیہ برسوں میں حساس معاملات پر مباحثوں کا انعقاد کروا رہے ہیں۔ اسی طرح کی کوئی کوشش سول اور ملٹری قیادت کے مابین اس سانحے کے سیاسی اور عسکری پہلوؤں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بھی کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح سول سوسائٹی اور سفارتی سطح پر بنگلا دیش کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی بھی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ تعلقات پر جمی برف پگھلانے کے لیے پاکستان کی جانب سے معذرت میں پہل کی جاسکتی ہے۔ بنگلا دیش کی جانب سے بھی جلد یا بدیر اس کا ایسا ہی جواب آسکتا ہے۔

اس معافی کا مقصد اس جذبے کو ہرگز نظر انداز کرنا نہیں ہوگا جس جذبے کے تحت قلیل تعداد اور قلیل سامانِ حرب کے ساتھ ہمارے فوجیوں نے ملک کا دفاع کیا۔ بنگلا دیش میں تعینات 45 ہزار فوجیوں میں صرف 34 ہزار جنگ لڑنے والے فوجی تھے۔ ان کے مقابلے میں 2 لاکھ 50 ہزار بھارتی فوجی اور ایک لاکھ 50 ہزار مکتی باہنی کے جنگجو تھے۔ خود بھارتی فیلڈ مارشل مانیکشا نے بھی پاکستانی افواج کی بہادری کو سراہا۔ اگر بنگلا دیش کی جانب سے ہزاروں غیر بنگالی افراد کے قتل پر معافی نہ بھی مانگی گئی تب بھی کم از کم تعلقات کا رخ ضرور تبدیل ہوگا۔

سال 2021ء آبادی کے لحاظ سے 2 بڑے مسلم ممالک اور جنوبی ایشیائی دوستوں کے لیے بہتر دو طرفہ تعلقات کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جاری فوجی، ثقافتی، تجارتی، تعلیمی، ذرائع ابلاغ، کھیل اور آرٹ کے شعبوں میں تبادلے میں اضافہ کرکے پاکستان کی سوہنی دھرتی اور سونار بنگلہ کے درمیان جسم و روح دونوں کا تعلق قائم کرکے ایک بہتر کل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔


یہ مضمون 16 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

shaoor ehsan Dec 21, 2020 08:39am
You are right, people like him shall be in Pakistani law making assemblies.