سرکاری ملازمین کے خلاف محکمانہ کارروائی ریٹائرمنٹ کے 2 سال کے اندر مکمل کرنا لازم قرار

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2020
اس سے ایک ریٹائرڈ ملازم کو اپنی ریٹائرڈ زندگی کا لطف اٹھانے اور حکومت کو غیر ضروری اخراجات سے بچنے میں مدد ملے گی، سپریم کورٹ - اے ایف پی:فائل فوٹو
اس سے ایک ریٹائرڈ ملازم کو اپنی ریٹائرڈ زندگی کا لطف اٹھانے اور حکومت کو غیر ضروری اخراجات سے بچنے میں مدد ملے گی، سپریم کورٹ - اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ ریٹائر ملازمین کے خلاف مستقبل میں کسی بھی محکمانہ کارروائی کو تیز تر بنائے جو اس کی ریٹائرمنٹ کے دو سالوں کے اندر اندر اپنے انجام تک پہنچے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ اس سے ایک ریٹائرڈ ملازم کو اپنی ریٹائرڈ زندگی کا لطف اٹھانے اور حکومت کو غیر ضروری اخراجات سے بچنے میں مدد ملے گی جبکہ وقت کی بھی بچت ہوگی۔

یہ ہدایت بدھ کے روز ایک فیصلے میں سامنے آئی جس میں پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب سروس ٹریبونل لاہور کے 18 جون 2020 کے فیصلے کے خلاف فیصل آباد کے محکمہ جنگلات کی جانب سے دائر اپیلوں کے ایک سیٹ کو بھی مسترد کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: ریٹائرمنٹ کے قواعد سرکاری افسران کیلئے تشویش کا باعث

جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی۔

آئین کے آرٹیکل 212 (3) کی شرائط میں عوامی اہمیت کے حامل قانون میں اہم سوالات جو درخواستوں میں اٹھائے گئے وہ یہ تھے کہ کیا پنجاب کے ملازمین کی اہلیت، نظم و ضبط اور احتساب ایکٹ 2006 (پیڈا) کی دفعہ 21 کی فراہمی ہدایات ہیں یا لازمی؟

قانون کا تقاضا ہے کہ کسی ریٹائرڈ ملازم کے خلاف شروع کی جانے والی محکمانہ کارروائی کو اس کی ریٹائرمنٹ کے دو سال کے اندر اندر حتمی شکل دے دی جانی چاہیے۔

یہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب جاوید اقبال کے خلاف 19 دسمبر 2009 کو جب وہ جنگلات کے محافظ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے تو شوکاز نوٹس کے ذریعے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی تھی اور انہیں 23 اکتوبر 2012 کو ایک بڑے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

انضباطی تحقیقات کے دوران جاوید اقبال 15 اپریل 2010 کو ملازمت سے ریٹائر ہوئے تاہم ان کے خلاف محکمانہ کارروائی جاری رہی اور وہ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد حتمی شکل دے دی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ مقننہ کے اصل ارادے کو بے نقاب کرنا عدالت کا فرض ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ: ریٹائرمنٹ کی عمر 63 برس کرنے کا صوبائی حکومت کافیصلہ کالعدم

انہوں نے کہا کہ حتمی امتحان ہی مقننہ کا ارادہ تھا نہ کہ وہ زبان جس میں ارادہ ظاہر ہورہا تھا۔

موجودہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ مدعا علیہ کے خلاف محکمانہ کارروائی اس کی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد طے ہوئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اس طرح محکمانہ کارروائی کا کوئی قانونی حیثیت نہیں جس سے محکمانہ احکامات کالعدم ہوگئے اور ان کا کوئی قانونی اثر نہیں۔

نتیجتاً عدالت نے اپیل مسترد کردی اور درخواست خارج کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں