کریپٹو کرنسی کو کبھی بھی غیرقانونی قرار نہیں دیا، اسٹیٹ بینک

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2020
سندھ ہائی کورٹ نے جواب نہ دینے پر وزارت خزانہ پر برہمی کا اظہار کیا— فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
سندھ ہائی کورٹ نے جواب نہ دینے پر وزارت خزانہ پر برہمی کا اظہار کیا— فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے کریپٹو کرنسی سے متعلق درخواست پر اپنے تاثرات درج نہ کرنے پر وفاقی وزارت خزانہ پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ اس نے کبھی بھی اسے غیر قانونی قرار نہیں دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو ججوں پر مشتمل بینچ نے اسٹیٹ بینک سے 13 جنوری تک رائے طلب کی تھی کہ پاکستان میں کریپٹو کرنسی کاروبار کو روکنے کے لیے کوئی قانون موجود ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: بٹ کوائن کی قیمت پہلی بار 20 ہزار ڈالرز سے زیادہ ہوگئی

اس سلسلے میں خبردار کیا گیا کہ اگر وزارت خزانہ کی جانب سے ڈپٹی ایڈیشنل اٹارنی کے ذریعے اگلی سماعت تک جواب داخل نہیں کیے گئے تو سیکریٹری خزانہ کو وضاحت کے لیے ذاتی طور پر پیش ہونا پڑے گا۔

بینچ نے ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کو ان کی عدم موجودگی پر شوکاز نوٹس جاری کیا اور ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر جواب کے ساتھ حاضر ہوں اور یہ بتائیں کہ ایف آئی اے درخواست گزار کے خلاف مقدمہ درج کیوں کیا ہے۔

جب بینچ نے اپریل 2018 میں ورچوئل کرنسی کے استمعال پر پابندی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے مبینہ طور پر جاری اعلامیے کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت شروع کی تھی تو اس نے وزارت خزانہ اور ایف آئی اے کی جانب سے جواب داخل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا کیونکہ گزشتہ سماعت پر بینچ نے انہیں جواب داخل کرنے کا آخری موقع فراہم کیا تھا۔

اسٹیٹ بینک کے جوائنٹ ڈائریکٹر ریحان مسعود نے بینچ کو آگاہ کیا کہ انہوں نے کبھی بھی کریپٹو کرنسی کو قانونی نہیں قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کی کریپٹوکرنسی جنوری 2021 میں متعارف کرائے جانے کا امکان

بینچ نے انہیں اگلی سماعت میں حاضر اور بیان قلمبند کرانے کی ہدایت کی کہ آیا کوئی ایسا قانون، قاعدہ یا ضابطہ ہے جس سے پاکستان میں کریپٹو کرنسی کے کاروبار کو روکا جاتا ہے۔

بینچ نے ایف آئی اے کو درخواست گزار کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔

وقار ذکا نے سندھ ہائی کورٹ میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ 6 اپریل 2018 کو اسٹیٹ بینک کے گورنر نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ تمام بینکوں اور ادائیگی کے نظام کے آپریٹرز کو ورچوئل کرنسیوں / ٹوکن پر عملدرآمد، استعمال، تجارت، منتقلی اور سرمایہ کاری سے باز رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

درخواست گزار نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ نامعلوم سرکلر کو کالعدم قرار دے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 4 اور 18 کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: فیس بک کی متنازع کریپٹوکرنسی کا نام بدل دیا گیا

انہوں نے ایف آئی اے سے ان افراد پر گرفت کرنے کو بھی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا جو ورچوئل اثاثوں یا کریپٹو مائننگ مشینوں کے مالک تھے اور ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں۔

ڈومیسائل، پی آر سی کے بارے میں رپورٹ طلب

سندھ ہائی کورٹ ڈویژن کے ایک اور بینچ نے جمعرات کو سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ڈومیسائل اور پی آر سی کے ریکارڈ روم میں لگنے والی آگ متعلق رپورٹ 11 جنوری تک ڈپٹی کمشنر آفس (ایسٹ) میں جمع کرائیں۔

ایم کیو ایم پی کے رہنما خواجہ اظہارالحسن اور دیگر نے صوبے کے شہروں میں بغیر ڈومیسائل اور پی آر سی کے رہائش پذیر افراد کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اعجاز جاکھرانی و دیگر پر فرد جرم عائد

ایم کیو ایم رہنما کا مؤقف تھا کہ ڈی سی ایسٹ آفس کے ریکارڈ روم میں لگی آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔

اعجاز جاکھرانی کی درخواست برخاست

سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کو سابق وفاقی وزیر اعجاز حسین جاکھرانی کی قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے تفتیش کے لیے گرفتاری سے روکنے کی درخواست مسترد کردی۔

اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے نیب کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں ایک ڈویژنل بینچ نے درخواست مسترد کردی جس کی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں