پیپلزپارٹی کا مردم شماری کے بلاکس میں 5 فیصد کے آڈٹ کرانے پر زور

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2020
یہ اعداد و شمار کسی بھی سطح پر کسی بھی دوسرے انتخابات یا صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے لیے درست نہیں ہیں، رہنما پیپلز پارٹی - فائل فوٹو:ڈان
یہ اعداد و شمار کسی بھی سطح پر کسی بھی دوسرے انتخابات یا صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے لیے درست نہیں ہیں، رہنما پیپلز پارٹی - فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے وفاقی کابینہ کے تین سال قبل ہونے والے 'متنازع' مردم شماری کے عبوری نتائج کو منتخب بلاکس میں بغیر کسی آڈٹ کے توثیق کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن تاج حیدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے وفاقی کابینہ نے سینیٹ میں پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان 2017 کی مردم شماری کے 'انتہائی متنازع' نتائج کو تصدیق کے لیے منتخب کردہ بلاکس میں 5 فیصد آبادی کی دوبارہ گنتی کے ذریعے درست کرنے کے لیے معاہدے کو نظرانداز کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

مسٹر حیدر نے کہا 'یہ معاہدہ، جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹر اعظم سواتی کے دستخط بھی ہیں، سے آئین میں 24 ویں ترمیم کی منظوری کی راہ کھلی ہے۔

مزید پڑھیں: کابینہ نے 3 سال بعد مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی

اس ترمیم کے تحت صرف 2018 کے عام انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کے لیے عارضی مردم شماری کے اعداد و شمار کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار کسی بھی سطح پر کسی بھی دوسرے انتخابات یا صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے لیے درست نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جان بوجھ کر 2017 کی مردم شماری کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقہ کار میں نقص ڈالا گیا جس کے تحت اس صوبے کی آبادی میں دوسرے صوبوں سے آنے والے مہاجرین کی گنتی نہیں کی گئی جہاں وہ اس وقت رہ رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کے انجام پر کئی جماعتوں، رہنماؤں کی سیاست ختم ہوگی، شبلی فراز

تاج حیدر کا کہنا تھا کہ 'یہ غلط طریقہ اسلام آباد کی آبادی کی گنتی کے دوران لاگو نہیں کیا گیا تھا جہاں 90 فیصد سے زیادہ شہری دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کر کے آباد ہیں'۔

خاندان کا حجم

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ مردم شماری میں سندھ کے تمام اضلاع میں ایک اوسط گھر والوں کی تعداد کو کم سے کم رپورٹ کیا گیا ہے، فرق دیگر اضلاع کے مقابلے میں کراچی میں کم ہے تاہم 'بدقسمتی سے ایم کیو ایم صرف کراچی کی بات کر رہی ہے اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس جو سلیکٹڈ حکومت کی شراکت دار ہے نے سندھ کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کی حمایت کی ہے'۔

انہوں نے ایک مطالعے کا حوالہ دیا جسے ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے (ایم آئی سی ایس) کے نام سے جانا جاتا ہے، جو یونیسیف کی جانب سے ہر صوبے میں ہر چار سال بعد کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے لیے 2014 کے ایم آئی سی ایس کے مطابق سندھ میں ایک خاندان کا اوسط سائز 7.2 ہے، اگر ہم 2017 میں مردم شماری سامنے آنے والے 85 لاکھ خاندانوں کی تعداد سے اس اعداد و شمار کو ضرب دیتے ہیں تو سندھ کی کم سے کم آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ کے بجائے 6 کروڑ 18 لاکھ ہوجائے۔

تبصرے (0) بند ہیں