سال 2020: عدالت عظمیٰ کے محض 2 ازخود نوٹس مگر ججز کے ریمارکس زبان زد عام رہے

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2020
سپریم کورٹ نے رواں برس پہلا ازخود نوٹس 10 اپریل کو کورونا وائرس کی وبا پر لیا 
—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے رواں برس پہلا ازخود نوٹس 10 اپریل کو کورونا وائرس کی وبا پر لیا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

عدالت عظمیٰ نے گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس محض 2 ازخود نوٹس لیے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) مقدمات اور کورونا وائرس ازخود نوٹس میں ججز کے ریمارکس زبان زد عام رہے۔

سال 2020 میں جہاں ملکی حالات میں جہاں نشیب و فراز دیکھنے کو ملے وہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف جسٹس کی جانب سے اہم ترین فیصلے بھی توجہ کا مرکز رہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کے کورونا سے متعلق اقدامات، چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے لیا

مقدمات میں ججز کے اہم ریمارکس نے مقبولیت اختیار کی تو دوسری طرف عدلیہ نے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ صوبائی اور شہری حکومتوں، ان کے عہدیداران و انتظامی امور دیکھنے والی بیوروکریسی کی سرزنش کی اور اس سرزنش میں نیب اور سیکیورٹی ادارے بھی زد میں آئے۔

سپریم کورٹ نے رواں برس پہلا ازخود نوٹس 10 اپریل کو کورونا وائرس کی وبا پر لیا۔

نیشنل ڈیزاسٹر اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سمیت وفاق اور صوبائی حکومتوں کے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات اور خرچ کی گئی رقوم پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا، چیف جسٹس

عید الفطر کے قریب حکومت کو بند مارکیٹس، مالز اور بازاروں کو کھولنے کا حکم دیا گیا۔

عدالت نے دوسرا ازخود نوٹس چیئرمین نیب کی تقرریوں کے اختیار پر لیا اور چیئرمین نیب کو رولز کی منظوری تک 17 گریڈ سے اوپر کے عہدوں پر تعیناتیوں سے روک دیا۔

انصاف کی تیز فراہمی کے لیے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا حکم بھی دیا گیا۔

کورونا ازخود نوٹس کیس میں عدالت کی جانب سے وزیراعظم کے سابق مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے جس کی وجہ سے ان کو اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا اور ساتھ ہی چیف جسٹس پر بھی سوشل میدیا پر تنقید کی گئی۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

جس پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیا اور معاملہ انکوائری کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیج دیا۔

19 جون 2020 کو عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر ان کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا اور اس فیصلے کو بہت پذیرائی ملی۔

پورا سال نیب اپنی کارکردگی اور کنڈکٹ کی وجہ سے زیر عتاب رہا جبکہ مختلف مقدمات میں عدالتیں نیب پر برہمی کا اظہار کرتی رہی۔

سپریم کورٹ نے رواں سال مارچ میں خواجہ برادران کو پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں ضمانت دی اور تفصیلی فیصلے میں اس کیس کو انسانی تذلیل کی بدترین مثال قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل: نیب نے خواجہ برادران کو گرفتار کرلیا

فیصلے میں کہا گیا کہ نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور طاقتور کی جانب سے سیاسی حریفوں کو نیب کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا جس کی وجہ سے نیب پر عوام کا اعتماد ختم ہو گیا۔

رواں سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کنونشن سینٹر میں وکلا کی نجی تقریب میں وزیراعظم کی شرکت پر عمران خان اور منتظمین کو نوٹس جاری کرکے سماعت کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو ارسال کیا۔

اس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات نہ کراونے پر صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔

دسمبر میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے ملزمان ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے دوران نیب سے ملزمان کی گرفتاریوں پر رپورٹ مانگی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

salauddin Dec 29, 2020 11:52am
galat hai