لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

عام طور پر دسمبر کروڑوں لوگوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ تہوار کے دنوں میں لوگ اپنی روزمرہ زندگی کی پریشانیاں اور مشکلات بھول جاتے ہیں، لیکن کچھ سال ایسے بھی آئے جن میں دسمبر مختلف تھا۔

جیسے کہ ہمارے لیے 1971ء کا دسمبر یا پھر 2004ء میں آنے والا سونامی (یہ وہ سونامی نہیں ہے جو تقریباً 10 سال بعد راولپنڈی میں ٹیکٹانک پلیٹوں کے تحرک سے وجود میں آیا تھا) اور اس کے علاوہ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ اس کی مثال ہے۔

میں نے دسمبر میں ہونے والے اذیت ناک واقعات کا ذکر کیا اور میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ آپ خود بھی ایسی ہی ایک فہرست بناسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ 2007ء میں ہونے والا بے نظیر بھٹو کا قتل ہر فہرست میں شامل ہوگا۔

اس موسمِ سرما میں دنیا کورونا کی دوسری لہر سے نبرد آزما ہے۔ ابتدائی طور پر کچھ امیر ترقی یافتہ ممالک میں کورونا کی ویکسین متعارف ہوچکی ہے اور اس کے ساتھ ہی اب ہمیں امید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔ لیکن ایسا تمام ممالک کے ساتھ نہیں ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ کورونا کی ویکسین عام ہونے تک یہ وبا مزید کتنی ہی زندگیاں نگل جائے گی کیونکہ دنیا کی تمام آبادی کو ویکسین لگانا ایک بڑا کام ہے۔ ویکسین کے حصول سے لے کر اسے بڑے پیمانے پر تقسیم کرنے کے انفرااسٹرکچر تک کئی ایسے مسائل موجود ہیں جن کا حل آسان نہیں ہے۔

اس وبا سے جاری جانی نقصان نے ہر کسی کو متاثر کیا ہے۔ شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس کے احباب میں سے کسی کا پیارا اس وبا کے ہاتھوں زندگی کی بازی نہ ہارا ہو۔ یہ حالات مستقبل میں مزید خراب ہوں گے کیونکہ امیر ممالک کے لوگوں کو پہلے ویکسین لگ جائے گی جبکہ غریب ممالک کے لوگ اس دوران اس کا شکار ہوتے رہیں گے.

لاک ڈاؤن، حفاظتی تدابیر اور سفری پابندیوں کی وجہ سے میرے گھر کے افراد، بہن بھائی اور دوست دنیا کے مختلف کونوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ہم سب کے ذہنوں کے کسی گوشے میں یہ سوال موجود ہے کہ کیا ہم دوبارہ کبھی مل سکیں گے؟

یہی زندگی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک زندگی باقی ہے تب تک امید بھی باقی ہے۔ اس المناک دسمبر کا تجربہ کرنے کے باوجود بھی میری یہی رائے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دسمبر کچھ زیادہ ہی ناخوشگوار ثابت ہوا۔ کسی دوست کو کھو دینا ایک عذاب سے کم نہیں ہے لیکن کسی ایسے دوست کو دیکھنا بھی آسان نہیں ہے جس کا کوئی پیارا اس سے بچھڑ گیا ہو۔

16 دسمبر کو میرے 30 سال پرانے دوست اور ڈان اخبار کے کالم نگار عرفان حسین اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ وہ تقریباً 4 سال تک کینسر کے موذی مرض سے اپنی ہمت کے سہارے جنگ لڑتے رہے۔

ہم اکثر مرحومین کی صفات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن عرفان کا اس سے بہتر کوئی تعارف نہیں ہوگا کہ وہ مہربانی، گرم جوشی، ذہانت، دلکشی، دیانت داری اور انسانیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ ایک صاحبِ مطالعہ شخصیت تھے۔ فن اور موسیقی کے ماہر اور ایک متحرک سیاح۔ ان کی ذہانت کی وجہ سے ہی ان کی شخصیت میں عاجزی کا عنصر بھی موجود تھا۔

انہوں نے غیر معقول افراد کے ساتھ بھی اس صبر کے ساتھ استدلال کیا کہ مجھ جیسا جلد باز شخص بھی اس کی نقل کرنا چاہے گا۔ انہیں ہمارے کالم نگاروں کے درمیان ہمیشہ پسند کیا جانا چاہیے اور احترام کیا جانا چاہیے کیونکہ سیکولرازم اور کثیریت کے نظریے پر ڈٹے رہنے کے باوجود بھی انہوں نے کبھی بھی غصے میں آکر اپنے قلم کا استعمال نہیں کیا اور ہمیشہ خود کو حدود آشنا رکھا۔

ان کے لندن کے گھر میں قائم بڑے کچن سے لے کر Devizes اور Dorset کے مکان تک ہر جگہ ہمیں عرفان اور ان کی اتنی ہی فراخ دل اہلیہ شارلیٹ ہمیشہ خوش آمدید کہتیں۔ وہ ہمیں مشیلین اسٹار کے معیار کا کھانا بناکر کھلاتے۔ ہم ساتھ کھانے پینے والے دوست تھے۔ میں آخری مرتبہ جب لندن گیا تھا تو Dorset میں عرفان سے ملنے بھی گیا تھا۔ اس سے ایک دن پہلے ہی وہ کیمو کے عمل سے گزرے تھے اس لیے ان کی طبعیت بہتر نہیں تھی، لیکن بھر بھی ان کو اس بات کا افسوس تھا کہ وہ میرے لیے کوئی کھانا تیار نہیں کرسکتے۔

خوشی کے اس تہوار پر ہماری دعائیں شارلٹ، عرفان کے بیٹے شاکر اور پوتوں دانیال اور سلیمان کے ساتھ ہیں۔ یہ تینوں ہی ان کے لیے خوشی کا باعث بنے اور انہیں اپنے بیٹے اور پوتوں پر فخر تھا۔

مظہر عباس سے میں پہلی مرتبہ اپنے ایک رشتے دار کے گھر حیدرآباد میں ملا تھا۔ ہم اسکول میں ساتھ رہے۔ کئی سالوں بعد ہم جامعہ کراچی میں ملے جہاں وہ صحافت کے طالب علم اور ایک ایسے پروگریسو کارکن تھے جس نے اپنے نظریے کی خاطر اپنی جان اور آزادی تک داؤ پر لگادی تھی۔

ان ہی کی دیکھا دیکھی میں نے بھی صحافت کا راستہ اختیار کیا۔ 1980ء کی دہائی میں ہم ہارون ہاؤس کی ایک ہی منزل پر کام کرتے رہے۔ میں ڈان میں کام کرتا تھا اور وہ ساتھ والے کمرے میں دی اسٹار میں۔ وہ بہت منجھے ہوئے رپورٹر تھے۔ ان کے پاس یہ صلاحیت تھی کہ وہ ایسی جگہ پہنچ جاتے، جہاں خبر بن رہی ہوتی۔ عملی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد کے درمیان شاید ہی انہیں کسی اور کام کے لیے وقت ملتا تھا۔ ہم میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے سیاست کو ترک کردیا لیکن مظہر ثابت قدم رہے۔

ہم سوچتے تھے کہ کیا وہ کبھی ایسا ساتھی ڈھونڈ سکیں گے جو انہیں زندگی کے ہم سفر کے طور پر دیکھے۔ ان کی شادی ارم سے ہوئی جنہیں ان کے دوست اور گھر والے ڈولی کہتے تھے۔ ارم ایک خاموش اور شرمیلی خاتون تھیں جو اپنے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رکھتی تھیں۔ ساتھ ہی وہ ایک مضبوط خاتون بھی تھیں۔ ان دونوں نے زندگی کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ ان دونوں نے ساتھ مل کر ایک خوبصورت زندگی گزاری اور ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ ان کی 2 بیٹیاں شیتل اور کسہ ہیں۔ اس ہفتے کراچی کے اسپتال میں مختصر وقت کے لیے زیرِ علاج رہنے کے بعد ارم انتقال کرگئیں۔

مجھے اندازہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی زندگیوں میں مرکزی حثیت رکھتی تھیں اور میں ان کے گھر والوں کے کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ہماری دعائیں ہر اس شخص کے لیے ہیں جس نے 2020ء میں اپنے کسی پیارے کو کھویا ہے۔ ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ نیا سال ہمارے لیے سکون، صحت مندی اور خوشیوں کا پیغام لے کر آئے۔


یہ مضمون 27 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں