ہزارہ برادری تدفین کو وزیر اعظم کی آمد سے مشروط نہ کرے، وزیراعلیٰ بلوچستان کی درخواست

اپ ڈیٹ 06 جنوری 2021
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے مچھ واقعے کے خلاف احتجاجاً دھرنا دینے والے ہزارہ برادری سے درخواست کی ہے کہ وہ شہیدوں کی تدفین کر دیں اور اسے وزیر اعظم کی آمد سے مشروط نہ کریں۔

کوئٹہ میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم ہزارہ برادری کے ساتھ حال ہی میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے بہت افسردہ ہیں، داعش جیسے عناصر اس طرح کے واقعات کر کے پاکستان میں چیزوں کو خراب کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: مچھ میں اغوا کے بعد 11 کان کنوں کا قتل

ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر پاکستان، پاکستانی قوم اور یہاں کے امن کے دشمن ہیں اور اس میں بہت سارے ہاتھ ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں آج ہی بیرون ملک سے واپس لوٹا ہوں اور ہم دھرنے والوں سے بات کریں گے، یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں ان سے بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔

جام کمال خان نے کہا کہ دہشتگردی کے حوالے سے حکومت بلوچستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تمام لوگ پہلے دن سے اس کی پوری کوشش کررہے ہیں، پاکستان سے باہر مقیم لوگ ہماری کوششوں کو شاید نہیں سمجھ سکتے لیکن ہزارہ ٹاؤن، مری آباد اور کوئٹہ میں رہنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ چیزوں کو انہوں نے کس طرح سے بہتر ہوتے ہوئے دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امن کے قیام میں بہت کامیابی ملی اور صورتحال بہتر ہوئی لیکن اب یہ اس طرح کا واقعہ ہو گیا ہے، ہم نے اس شہر اور بلوچستان کے حوالے سے بہت کام کیے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم بلوچستان، کوئٹہ اور ہر کمیونٹی کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لیکن بہت پاکستان، بلوچستان اور اس کمیونٹی سے دشمنی رکھنے والے یہ چیزیں پسند نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور پاکستان میں اس طرح کی چیزیں ہوں تاکہ وہ انہیں ایک رنگ دے کر خرابی کی طرف لے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: مچھ میں 11 کان کنوں کے قتل پر وزیراعظم سمیت سیاسی شخصیات کا اظہار مذمت

ان کا کہنا تھا کہ اس صوبے اور شہر نے 10 سال بہت مشکل وقت میں گزارے خصوصاً ہزاری برادری اور کوئٹہ کے لوگوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا اور کوئی نہیں چاہتا کہ اس طرح کے دور کی دوبارہ جھلک بھی نظر آئے۔

وطن واپس پہنچتے ہی احتجاج کرنے والوں سے ملاقات نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ پوری ہزارہ برادری سے یکجہتی کا اظہار کرسکیں، ہم کسی گروپ یا سیاسی جماعت سے یکجہتی کا اظہار نہیں کررہے بلکہ پوری برادری سے اس کا اظہار کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ساتھ لواحقین کے پاس بھی جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی حیثیت سے وزیر اعظم، صدر مملکت اور وزرا بھی آئیں گے لیکن میری لواحقین سے درخواست ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد آپ تمام مسائل کا تعلق ہم سے ہے اور ہم ہی ذمے دار بھی ہیں، ہم نے ان تمام مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہے۔

جام کمال خان نے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان میں ایک کمیونٹی کے ساتھ ہوا ہے، جس طرح وزیر اعظم کی ذمے داری پورے پاکستان میں ہر جگہ ہے، اسی طرح بلوچستان کے لیے بھی ہے اور وزیراعظم بلوچستان ضرور آئیں گے لیکن میری درخواست ہے کہ تدفین کو اس سے مشروط نہ کریں۔

مزید پڑھیں: مچھ واقعہ: شیخ رشید کی یقین دہانیاں مسترد، مظاہرین کا دھرناجاری

ان کا کہنا تھا کہ تدفین ہماری مذہی ذمے داری ہے، ہم جیسے بھی ہیں ہم مسلمان ہیں تو ہم پر دینی فرائض بھی ہیں تو ان دینی فرائض کو پورا کرتے ہوئے ہم اپنی ذمے داریاں پوری کریں، پھر وزیر اعظم کو بھی اپنی ذمے داری پوری کرنی ہو گی، وزیر اعلیٰ کو بھی کرنی ہو گی، دیگر وزرا کو بھی کرنی ہو گی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے سمندری امور علی زیدی نے کہا کہ پاکستان کے بیرونی دشمن ملک میں اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اندر سے ہی میر جعفر اور میر صادق مل جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جب حکومت میں نہیں تھے تو ہم سنتے تھے کہ بیرونی ہاتھ ہیں، میں آج حکومت کے اندر رہ کر آپ کو ثبوت بھی دے دیتا ہوں، یہ کلبھوشن یادیو جیسے لوگ یہیں سے پکڑے گئے تھے، ان کے بیان آپ کو یاد ہونے چاہئیں کہ وہ کیا کہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک کا نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے بیانات دیکھ لیں کہ پاکستان میں کیسے تباہی کرنی ہے، وہ فالٹ لائنز میں کھیلتے ہیں اور میری عاجزانہ گزارش ہے کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کو ہمیں اب دفنانا چاہیے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیر اعظم اور صدر مملکت آئیں گے اور وزیر اعلیٰ کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی آمد سے تدفین کو مشروط نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا مچھ میں دہشت گردی کے واقعے پر اظہارِ مذمت

ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے بارے میں ہم نے سوچا تھا لیکن جتنے بھی بیرون عناصر ہیں پاکستان ان کو شکست دے گا۔

اس موقع پر ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ اور مُشیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام اہل تشیع اور ہزارہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر دوپہر ایک بجے تدفین کرنے پر اتفاق ہوا تھا لیکن پھر کچھ لوگ میتیں اٹھا کر لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لواحقین سے ملے، وہ انتہائی افسردہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے شہدا کی تدفین کی جائے۔

بلوچستان شعیہ کانفرنس کے سیکریٹری جنرل جواد رفیعی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستانی اور بلوچستانی ہیں، ہمارے لوگوں کو ماضی میں بھی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے شیعہ، پٹھان، پنجابی، ہزارہ اور اُردو بولنے والوں کو قتل کیا گیا، ہمارے شہر کی کوئی مسجد ایسی نہیں جہاں شہدا کی فاتحہ نہ ہوئی ہو، مسلسل واقعات کو نسل کُشی سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مچھ میں حال ہی میں لوگ واپس اپنے علاقوں میں لوٹے ہیں اور مچھ میں کام کرنے والے کان کن بے چینی و خوف کا شکار ہیں جبکہ ہمارے سرکاری ملازمین، مزدور اور طلبہ پریشان ہیں۔

مزید پڑھیں: ملک بھر میں سانحہ مچھ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

بعدازاں کوئٹہ میں دھرنے پر بیٹھے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیر جام کمال خان نے کہا کہ مچھ میں ناخوشگوار واقعہ ہوا اور میرے الفاظ آپ کو دلی اطمینان نہیں دے سکتے لیکن ہمیں اس شہر اور صوبے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کا دھرنا کافی اہمیت رکھتا ہے لیکن میرے لیے وہ امام بارگاہ زیادہ اہمیت رکھتی ہے جہاں سے میں آ رہا ہوں اور اسی لیے میں پہلے وہاں گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس صوبے کے حوالے سے مجھے اور آپ کو ہی سب کچھ کرنا ہے، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ بھی آئیں گے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ آپ کے احساسات کے حوالے سے بات کریں گے البتہ اس بلوچستان کے مسئلے میں نے اور آپ نے مل کر حل کرنے ہیں اور اگر ہماری نیت ٹھیک ہے تو ہم انہیں ٹھیک کرنے کی طرف لے جائیں گے۔

جام کمال خان نے کہا کہ میری آپ سے التجا ہے کہ ہم اس حوالے سے ایسا فیصلہ کریں جس سے ہم اس کو آگے کی جانب لے کر جائیں، اگر وزیراعظم کے آنے سے مسئلے ہوتے تو وہ یہاں آنے میں دو منٹ نہیں لگائیں گے لیکن وہ آ کر ہم سے کہیں گے کہ صوبائی حکومت سے مسئلہ حل کرائیں۔

یہ بھی پڑھیں: کان کنوں کا قتل: انتہائی سرد موسم میں بھی ہزارہ برادری کا احتجاج جاری

انہوں نے کہا کہ جب میں وزیراعلیٰ بنا تو چاغی روڈ پر زائرین کو تحفظ فراہم کرنا بہت بڑا مسئلہ تھا لیکن ہم نے انہیں تحفظ فراہم کیا اور ذمے داری کو احسن انداز میں انجام دینے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ آپ تدفین کی ذمے داری پوری کریں اور میں آپ سے بطور وزیراعلیٰ وعدہ کرتا ہوں کہ وزیراعظم آپ کے پاس ضرور آئیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں