افغانستان کی مچھ میں جاں بحق 3 شہریوں کی میتیں وطن بھیجنے کی درخواست

مچھ واقعے کے بعد ہزارہ برادری کے افراد میتیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں—فائل/فوٹو: اے ایف پی
مچھ واقعے کے بعد ہزارہ برادری کے افراد میتیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں—فائل/فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کے قونصل جنرل نے وزارت خارجہ کو لکھے گئے خط میں درخواست کی ہے کہ بلوچستان کے ضلع بولان کے پہاڑی علاقے میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے 11 کان کنوں میں سے 3 کی لاشیں افغانستان بھیج دی جائیں۔

کوئٹہ میں وزارت خارجہ کے کیمپ آفس کو 5 جنوری کو لکھے گئے افغان قونصل جنرل کا خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے شہریوں کی میتیں وطن بھیجنے کی درخواست کی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: مچھ میں اغوا کے بعد 11 کان کنوں کا قتل

انہوں نے لکھا کہ 'جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے ضلع بولان میں مچھ میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا جو دونوں ممالک کے حکومت مخالف اور مشترکہ دشمنوں نے کیا اور اس میں 7 افراد افغانستان کے شہری تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جاں بحق افراد کے لواحقین نے میتین افغانستان بھیجنے کی درخواست کی ہے۔

افغان قونصل جنرل نے دفتر خارجہ سے کہا کہ 'آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے مذکورہ تین میتیوں کو براستہ چمن-اسپن بولدک راہداری سے افغانستان منتقل کرنے کی اجازت دے دیں'۔

خیال رہے کہ 3 جنوری کو ہزار برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو اس وقت اسلحے کے زور پر اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔

نامعلوم حملہ آوروں نے کان کنوں کو آنکھوں میں پٹیاں باندھ کر مچھ میں کوئلے کی کان سے دور لے گئے تھے اور انہیں قتل کر دیا تھا۔

دہشت گرد تنظیم داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

مزید پڑھیں: کان کنوں کا قتل: انتہائی سرد موسم میں بھی ہزارہ برادری کا احتجاج جاری

بلوچستان میں ضلع بولان کے دور دراز علاقے میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے خلاف صوبے سمیت پورے ملک میں احتجاج کیا گیا اور حکومتی عہدیداروں سمیت دیگر تمام حلقوں کی جانب سے سخت مذمت کی گئی۔

اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے اظہار مذمت کیا تھا جبکہ عمران خان نے ایف سی کو واقعے میں ملوث افراد کو انصاف میں کٹہرے میں لانے کا حکم دیا تھا۔

ہرازہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر اپنے پیاروں کی میتیں رکھ کر احتجاج شروع کردیا تھا۔

انتہائی سرد موسم میں منفی درجہ حرارت کے دوران خواتین، بچوں سمیت ہزاروں افراد مسلسل چوتھے روز اس احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اگرچہ وزیراعظم کی ہدایت پر ان مظاہرین سے مذاکرات کے لیے وزیر داخلہ شیخ رشید کوئٹہ پہنچے تھے تاہم دھرنے والے مظاہرین نے عمران خان کے آنے تک احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

بعد ازاں وفاقی وزیر علی زیدی اور معاون خصوصی زلفی بخاری بھی مذاکرات کے لیے ہزارہ برادری کے پاس گئے تھے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ جب تک وزیراعظم نہیں آتے تب تک دھرنا جاری رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں