کووڈ کے بیشتر مریضوں میں 6 ماہ بعد بھی علامات کی موجودگی کا انکشاف

09 جنوری 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کے 3 تہائی سے زیادہ مریضوں میں صحتیابی کے 6 ماہ بعد بھی کم از کم ایک علامت بدستور موجود ہوتی ہے۔

یہ بات چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع تحقیق میں چین کے شہر ووہان میں کووڈ 19 کے باعث ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں پر اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ان مریضوں میں 6 ماہ بعد جو علامات سب سے عام تھیں، ان میں تھکاوٹ یا مسلز کی کمزوری (63 فیصد) سرفہرست تھی۔

اس کے علاوہ 25 فیصد کو نیند میں مشکلات کا مسلسل سامنا ہوا جبکہ 23 فیصد نے ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کو رپورٹ کیا۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ہسپتال میں کووڈ کے نتیجے میں سنگین حد تک بیمار ہوکر پہنچنے والے افراد کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہوتے ہیں جبکہ صحتیابی کے 6 ماہ بعد سینے کے ٹیسٹوں میں غیرمعمولی تبدیلیوں کو دیکھا گیا۔

تحقیق کے مطابق 94 فیصد مریضوں میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں 52.5 فیصد تک کم ہوگئیں، جس سے ان میں وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے کا امکان بڑھ گیا۔

اس وبائی بیماری کے طویل المعیاد اثرات پر حالیہ مہینوں میں کافی کام ہوا ہے اور اس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔

بیجنگ کے چائنا۔ جاپان ہاسپٹل اور کیپیٹل میڈیکل یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں شامل پروفیر بن کاؤ نے بتایا کہ چونکہ کووڈ 19 ایک نیا مرض ہے، تو ہم نے اب جاکر اس کے طویل المعیاد اثرات کے بارے میں سمجھنا شروع کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ اس بیماری کے شکار بیشتر مریضوں میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بھی کسی حد تک منفی اثرات کا سامنا ہوتا ہے، خاص طور پر ان افراد کو جن میں بیماری کی شدت بہت زیادہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ افراد پر طویل عرصے تک تحقیق کی ضرورت ہوگی تاکہ کووڈ 19 کے اثرات کو مکمل طور سمجھا جاسکے۔

اس تحقیق میں 1733 کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جو 7 جنوری سے 29 مئی 2020 کے دوران ووہان کے ایک ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔

ان افراد کی اوسط عمر 57 سال تھی اور انہوں نے 16 جون سے 3 ستمبر تک ہسپتال میں فالو اپ وزٹ کیے تھے، جبکہ ان کی مانیٹرنگ اوسطاً 186 دن تک کی گئی۔

تمام مریضوں سے دوبدو سوالات پوچھے گئے، ان کی علامات اور صحت سے متعلق معیار زندگی کی جانچ پڑتال کی گئی۔

ان کے جسمانی معائنہ، لیبارٹری ٹیسٹ اور 6 منٹ کے چہل قدمی کے قوت برداشت کے ٹیسٹ بھی کیے گئے، جبکہ 390 مریضوں کے مزید ٹیسٹ بھی کیے گئے، جس میں پھیپھڑوں کے افعال کا تجزیہ بھی شامل تھا۔

علاوہ ازیں 94 مریضوں جن کے خون میں بیماری کے فوری بعد اینٹی باڈیز کی سطح کو ریکارڈ کیا تھا، ان کو بھی فالو اپ ٹیسٹ سے گزارا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 76 فیصد مریضوں کو صحتیابی کے 6 ماہ بعد بھی کم از کم کسی ایک علامت کا امنا ملسل کررہے تھے۔

ان میں شامل 390 مریض جن کے پھیپھڑوں کے افعال کے اضافی ٹیسٹ ہوئے تھے، ان کے افعال میں اوطاً 56 فیصد تک کمی کو دیکھا گیا، جبکہ جن افراد کو وینٹی لیٹر کی ضرورٹ پڑی، ان کے پھیپھڑوں میں خون میں آکسیجن کی کمی کو بھی دیکھا گیا۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جو مریض کووڈ کے باعث موت کے منہ سے جاکر واپس آئے، انہوں نے 6 منٹ کے چہل قدمی کے ٹیسٹ میں بدترین اسکور حاصل کیے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ کچھ مریضوں میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد گردوں کے مسائل بھی سامنے آئے تھے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ 13 فیصد مریضوں کے گردوں کے افعال ہسپتال کے دوران تو ٹھیک تھے مگر 6 ماہ بعد ان میں کمی دیکھنے میں آئی۔

جہاں تک اینٹی باڈیز کی بات تھی تو بیماری کے 6 ماہ بعد ان کی سطح میں اوسطاً 52.5 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی، تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے، تاکہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے یا گھر میں اس بیماری کو شکست دینے والوں کا موازنہ کیا جاکے۔

تبصرے (0) بند ہیں