کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف ویکسین کے ابتدائی نتائج جاری

09 جنوری 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— رائٹرز فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— رائٹرز فائل فوٹو

امریکی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف بھی سابقہ اقسام جتنی موثر ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی۔

فائزر کی جانب سے ٹیکساس یونیوسٹی کے محققین کے ساتھ کی جانے والی مشترکہ تحقیق کے نتائج جاری کیے گئے۔

اس تحقیق میں 20 رضاکاروں میں وائرس کی نئی اقسام کے خلاف ویکسین کی مزاحمت کو دیکھا گیا، جن کو لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا۔

نتائج میں دریافت کیا گیا کہ نئی اقسام سے ویکسین کی وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

تحقیق کے مطابق فائزر کی ویکسین ان نئی اقسام میں آنے والی 16 مختلف میوٹیشنز کے خلاف موثر ثابت ہوئی۔

یہ دونوں نئی اقسام سابقہ کے مقابلے میں زیادہ متعدی نظر آتی ہیں، جن کے نتیجے میں جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں نئے کیسز کی شرح میں ریکارڈ اضافہ حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔

برطانیہ میں دریافت نئی قسم کے کیسز دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچ چکے ہیں حالانکہ سفری پابندیوں کا ایک بار پھر اطلاق ہوا ہے۔

ابھی ایسے شواہد تو سامنے نہیں آئے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ ان نئی اقسام کے نتیجے میں بیماری کی شدت بڑھ جاتی ہے تاہم ان کے تیزی سے پھیلاؤ سے خدشات ضرور بڑھے ہیں۔

سائنسدانوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں دریافت نئی قسم میں ایک میوٹیشن اسے ویکسینز کے خلاف زیادہ مزاحمت کی طاقت دیتی ہے۔

فائزر کی ویکسین نے دنیا میں سب سے پہلے اپنا ٹرائل مکمل کیا تھا اور یہ بیماری سے تحفظ کے لیے 95 فیصد تک موثر قرار پائی تھی، جس کے بعد دسمبر میں برطانیہ میں اسے استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر لیو پون لٹمین نے کہا کہ ٹیکساس یونیورسٹی کی تحقیق ابتدائی ہے اور اس میں رضاکاروں کی تعداد کم تھی، مگر نتائج حوصلہ افزا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ تحقیق میں لوگوں کی تعداد کم تھی مگر دننیا کے مختلف حصوں میں اس ویکسین کا استعمال کیا جارہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ معقول حد تک لوگوں کو تحفظ مل رہا ہے۔

ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ اس کے لیے لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس استعمال کیا گیا جو نئی اقسام میں پائے جانے واللی میوٹیشنز کی مثالی نقل نہیں، جس کی وجہ سے نتائج کو محدود قرار دیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب 7 جنوری کو عالمی ادارہ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسیز پروگرام کے ڈائریکٹر مائیک ریان نے کہا کہ اس حوالے سے کام جاری ہے تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ ویکسینز نئی اقسام کے خلاف کتنی موثر ہیں، اب تک کے شواہد حوصلہ افزا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جہاں ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ویکسینز موثر ہیں اور ہمیں تشویش زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں