پاکستان: ڈیڑھ ماہ میں کورونا کے فعال کیسز میں 15 ہزار تک کی کمی

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2021
فعال کیسز میں دوسری مرتبہ کمی دیکھی جارہی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
فعال کیسز میں دوسری مرتبہ کمی دیکھی جارہی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ملک بھر میں جہاں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے وہی ڈیڑھ ماہ کے دوران اس وبا کے فعال کیسز 15 ہزار تک کم ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2020 میں مجموعی کیسز کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرگئی تھی تاہم اس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوئی اور پیر تک ملک بھر میں فعال کیسز 35 ہزار 246 تک پہنچ گئے تھے۔

اس حوالے سے قومی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ دوسری مرتبہ ہے کہ کیسز کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی ہے، اس سے قبل فروری کے آخری ہفتے میں آنے والے کووڈ 19 کے کیسز بڑھنا شروع ہوئے تھے اور فعال کیسز 50 ہزار سے تجاوز کر گئے تھے تاہم جولائی میں اس میں کمی آنا شروع ہوئی تھی اور 13 ستمبر 2020 تک صرف 5 ہزار 831 فعال کیسز رہ گئے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم اکتوبر میں کیسز ایک مرتبہ پھر بڑھنا شروع ہوئے اور نومبر کے آخری ہفتے میں یہ ایک مرتبہ پھر 50 ہزار کی تعداد کو عبور کرگئے جبکہ دسمبر میں دوبارہ ان میں کمی دیکھی گئی اور یہ 40 ہزار تک پہنچ گئے، مزید یہ کہ ہمیں اُمید ہے کہ یہ مزید کم ہوں گے اور 15 ہزار سے کچھ زائد تک پہنچ جائیں گے‘۔

علاوہ ازیں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے بتایا کہ پیر تک ملک بھر میں 294 وینٹی لیٹرز زیر استعمال تھے تاہم آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں کوئی بھی مریض وینٹی لیٹر پر نہیں تھا۔

اس اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ ملتان میں 45 فیصد وینٹی لیٹرز زیر استعمال تھے، جس کے بعد بہاولپور میں بھی 45 فیصد تھے، مزید یہ کہ اسلام آباد میں 34 اور لاہور میں 32 فیصد وینٹی لیٹرز پر مریض موجود تھے۔

آکسیجن بیڈز سے متعلق اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ پشاور میں 53 فیصد بستر زیر استعمال ہیں، جس کے بعد ملتان میں 36 فیصد، کراچی میں 35 فیصد اور اسلام آباد میں 29 فیصد زیر استعمال ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ وائرس دسمبر 2019 میں چین میں پایا گیا تھا اور پھر اس نے پوری دنیا میں پھیلنا شروع کیا تھا، پاکستان نے اس وائرس کو روکنے کے لیے اپنی سرحدیں بند کرنے کے علاوہ مختلف دیگر اقدامات اٹھائے تھے جس کی بدولت پاکستان میں اس کا پہلا کیس فروری 2020 کے آخری ہفتے میں سامنے آیا تھا۔

بعد ازاں 13 مارچ اعلیٰ سول اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں اس بحران کا جائزہ لیا گیا تھا جسے بعد ازاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے عالمی وبا قرار دے دیا گیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے اس این ایس سی اجلاس کی صدارت کی تھی اور متعلقہ حکام کو ہدایت دی تھی کہ وائرس کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔

تاہم 16 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا تھا اور کنسٹرکشن سمیت مختلف صنعتیں، تعلیمی ادارے، ریسٹورنٹس، شادل ہالز وغیرہ بند کردیے گئے تھے۔

اس تمام صورتحال میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) میڈیکل آلات اور صحت سے متعلق سپلائیز کی دستیابی کو جلد یقینی بنانے میں پیش پیش رہا جس کی وجہ سے صوبوں کے ساتھ تعاون میں بہتری آئی۔

پاکستان نے افغانستان اور ایران کے ساتھ اپنی مغربی سرحد کو سیل کردیا تھا یہاں تک کہ کرتارپور کو بھی مقامی لوگوں کے لیے بند کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں کووڈ 19 سے متعلق قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) نے 7 اگست سے تعمیراتی صنعت کو کھول دیا تھا جبکہ 8 اگست سے سیاحت کے شعبے اور 10 اگست سے ریسٹورنٹ اور ٹرانسپورٹ کے شعبے پر عائد پابندیوں کو ہٹا دیا گیا تھا تاہم تعلیمی ادارے اور شادی ہالز 15 ستمبر سے کھولے گئے تھے۔

مزید برآں چونکہ سیاحتی مقام کے کھولنے سے لوگوں کی بڑی تعداد آرہی تھی تاہم ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جارہا تھا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان نے اپنے سیاحتی مقامات کو بند کردیا تھا۔


یہ خبر 12 جنوری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں