امن معاہدہ: طالبان کی پاسداری کا جائزہ لے رہے ہیں، امریکی سیکریٹری خارجہ

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2021
اشرف غنی سے ٹیلی فونک گفتگو میں امریکی سیکریٹری خارجہ نے امن عمل کے لیے مضبوط سفارتی حمایت پر روشنی ڈالی — فائل فوٹو / انادولو ایجنسی
اشرف غنی سے ٹیلی فونک گفتگو میں امریکی سیکریٹری خارجہ نے امن عمل کے لیے مضبوط سفارتی حمایت پر روشنی ڈالی — فائل فوٹو / انادولو ایجنسی

امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بِلنکن نے افغان صدر اشرف غنی سے ہونے والی اپنی پہلی ٹیلی فونک بات چیت میں کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے اور شدت پسندوں کی طرف سے اس کی پاسداری کا جائزہ لے رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ سے جاری بیان کے مطابق انتھونی بلنکن اور اشرف غنی کی ٹیلی فونک گفتگو سے نئی انتظامیہ کے امریکا اور افغانستان کے درمیان پائیدار شراکت داری کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ انتھونی بلنکن نے اشرف غنی کو بتایا کہ امریکا، فروری 2020 میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کا جائزہ لے رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ کیا طالبان نے افغانستان میں تشدد میں کمی کے لیے دہشت گرد گروپوں سے اپنے تعلقات ختم کرنے اور افغان حکومت و دیگر فریقین سے بامعنی مذاکرات کرنے کے اپنے وعدوں پر پورا اتر رہے ہیں یا نہیں۔

امریکی سیکریٹری خارجہ نے امن عمل کے لیے مضبوط سفارتی حمایت پر روشنی ڈالی جس کا مقصد تنازع کے فریقین کو پائیدار سیاسی تصفیہ اور مستقل و جامع جنگ بندی میں مدد فراہم کرنا ہے جس سے تمام افغانوں کو فائدہ پہنچے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا جائزہ لیں گے، جوبائیڈن انتظامیہ

انتھونی بلنکن نے زور دیا کہ تمام افغان رہنماؤں کو گزشتہ 20 سالوں میں انسانی حقوق، شہری آزادی اور افغان معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے پیشرفت کو برقرار رکھتے ہوئے امن کے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے افغانستان کے مستحکم، خود مختار، جمہوری اور محفوظ مستقبل کے لیے مجموعی حکمت عملی کے حوالے سے افغان حکومت، نیٹو اتحادیوں اور بین الاقوامی شراکت داروں سے مشاورت کا عزم ظاہر کیا۔

واضح رہے کہ بائیڈن انتظامیہ، افغانستان میں امن حاصل کرنے کی اُمید کے ساتھ کئی بار کہہ چکی ہے کہ وہ امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے کا جائزہ لے گی۔

انتظامیہ کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے حملوں میں کمی کے تناظر میں معاہدے کا جائزہ لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ تقریباً 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکا، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجو گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان رہنما ملا برادر سے ٹیلی فونک رابطہ

29 فروری 2020 کو امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امریکی عہدیداران اور نیٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار 600 کے قریب ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں