وزیر خارجہ نے پاکستان کے سفارتی طور پر تنہا ہونے کے دعوے کو مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
بھارت کی خواہشات اور کوششوں کے باوجود ملک سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہوسکا، وزیر خارجہ - فائل فوٹو:ڈان نیوز
بھارت کی خواہشات اور کوششوں کے باوجود ملک سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہوسکا، وزیر خارجہ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کی جانب سے ’سفارتی تنہائی‘ کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کے امور پر دو طرفہ اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خارجہ پالیسی پر سینیٹ میں بحث کو ختم کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کے قانون سازوں کو خارجی امور سے متعلق بریفنگ اور اس سے متعلق مختلف امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی دعوت دی۔

انہوں نے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں حریفانہ خیالات پیدا کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے زور دیا کہ 'خارجہ پالیسی ریاست کے مفادات سے منسلک ہے'۔

مزید پڑھیں: پاکستان، یو اے ای کا تعلقات مضبوط بنانے کیلئے ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دینے پر اتفاق

وزیر خارجہ نے اپوزیشن رہنماؤں کے پاس جانے کی بھی پیش کش کی اگر وہ ان کے پاس نہیں آنا چاہتے ہیں تو۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کھلے ذہن کی ہے، اس پر ہم تنگ نظر نہیں ہیں'۔

وزیر خارجہ نے اپوزیشن کی جانب سے ملک کو سفارتی تنہائی کا سامنا کرنے پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی خواہشات اور کوششوں کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا۔

اس سلسلے میں انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں کامیابی، جس کے لیے گزشتہ اکتوبر میں پاکستان کو دوبارہ منتخب کیا گیا تھا، اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل، جہاں اس وقت پاکستان صدارت کے فرائض انجام دے رہا ہے اور افریقہ کے ساتھ تجارت میں گزشتہ سال سات فیصد اضافے کی نشاندہی کی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات دشوار ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں، چین

تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت 'چیلنجز، نقصانات اور خرابیوں' سے واقف ہے اور اس سے آگے بڑھنے کا منصوبہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے دائرہ کار میں چیلنجز نئے نہیں تھے اور کچھ پرانے اور موجودہ حکومت سے پہلے کے تھے۔

انہوں نے چند اہم تعلقات کا حوالہ بھی دیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن میں جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کے ساتھ افغان تنازع کے مختلف پہلوؤں، خاص طور پر فوج کی واپسی اور تشدد میں کمی کے حوالے سے اہم تبادلہ خیال ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے بات کرنے سے قبل سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے انضمام پر زور دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں حکومت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہاں ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور کابل نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر امن عمل کے لیے اسلام آباد کی حمایت کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: فرانس سے تعلقات رکھنے ہیں یا نہیں؟ پاکستان کا اسلامی ممالک سے رابطوں کا فیصلہ

وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں گرما گرمی کے تاثر کو مسترد کردیا۔

انہوں نے استدلال کیا کہ ریاض کا دیا ہوا قرض وقت کا پابند تھا اور جب زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی تو حکومت نے ادائیگی کردی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ سعودی حکومت نے نیامے (نائجر) میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کی حمایت کی تھی۔

متحدہ عرب امارات کے بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا انہیں اپنے اماراتی ہم منصب نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات پاکستان کی قیمت پر نہیں ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں