’مولانا، زرداری اور بلاول کے بیانات عکاسی کرتے ہیں کہ ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوچکا ہے‘

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے گفتگو کی—تصویر: ڈان نیوز
فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے گفتگو کی—تصویر: ڈان نیوز

وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ فضل الرحمٰن، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے حالیہ بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوچکا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے 31 جنوری تک وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی بات کی تھی، ان کا نوٹس میڈیا کے ذریعے ملا تھا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی، ہمارا عوام دوست سفر جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس حکومت پر یہ عدم اعتماد کی بات کر رہے ہیں، آج یہ حکومت پر نہیں ایک دوسرے پر عدم اعتماد کر رہے ہیں اور سینیٹ کے انتخاب میں وزیراعظم تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے کہ ہم نے اس ملک کے اندر، کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لیے آئینی ترمیم کی تجویز کی۔

مزید پڑھیں: استعفوں کے طریقے کار اور وقت پر 4 فروری کو تبادلہ خیال ہوگا، مریم نواز

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے رویے ان کے اندر کی کہانی بیان کریں گے کہ یہ اس کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت کرتے ہیں، ہم سینیٹ میں اپنی مطلوبہ نشستوں سے زائد لیں گے کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ ان کی صفوں میں جو ہل چل اور بے چینی ہے وہ بالآخر انہیں لے ڈوبے گی اور رنگ بدلتے بیانیے اپوزیشن کو تباہ برباد کردیں گے۔

دوران گفتگو سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو کسی مقصد کے لیے جیتے ہیں وہ عوام کے دلوں میں ہوتے ہیں اور جو ذات کے لیے جیتے ہیں وہ لندن جاکر ایون فیلڈ محلوں میں زندہ رہ کر عوام کے دلوں میں مرجاتے ہیں۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن زمین بوس ہوچکی ہے اب زیر زمین جانا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے تاریخی یوٹرن لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ ان کا بھی سافٹ ویئر اپ ڈی ہوچکا ہے۔

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت مخالف مہم چلارہی ہے جبکہ اس اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کا سینیٹ انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کے 25 ایم این ایز سے رابطوں کا دعوٰی

اس اتحاد میں ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔

اگرچہ اس اتحاد نے اپنی احتجاجی تحریک کے دوران وزیراعظم عمران خان سمیت اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کی تھی جبکہ عمران خان سے 31 جنوری تک مستعفی ہونے کا بھی کہا تھا۔

دوسری صورت میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تھا تاہم اس مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان ابھی تک نہیں ہوسکا ہے جبکہ 31 جنوری گزرنے کے باوجود بھی حکومت یا وزیراعظم کی جانب سے کوئی استعفیٰ نہیں آیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں