بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات نیب سے کرانے کا حکم کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
سپریم کورٹ نے پشاور کے بی آر ٹی منصوبے میں خیبر پختونخوا حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیا— فائل فوٹو:عبدالمجید گورایا
سپریم کورٹ نے پشاور کے بی آر ٹی منصوبے میں خیبر پختونخوا حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیا— فائل فوٹو:عبدالمجید گورایا

سپریم کورٹ نے پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے کیس میں خیبرپختونخوا حکومت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) سے تحقیقات کرانے کا پشاور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف خیبرپختونخوا کی حکومت اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: بی آر ٹی کی تحقیقات کے فیصلے پر حکم امتناع میں توسیع

خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے نمٹائے گئے مقدمے میں تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب سے تحقیقات کرانے کا پشاور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ قیاس آرائیوں پر مبنی تھا اور بی آر ٹی پشاور کی تحقیقات نیب نہیں کر سکے گا۔

بی آر ٹی منصوبہ

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے 6 ماہ بعد یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تاریخیں دیتے رہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 17 جولائی 2018 کو نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے معاملات کی مکمل تفتیش اور تحقیقات کرے تاہم صوبائی حکومت اور پی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں سول پٹیشن دائر کرتے ہوئے اس عدالتی حکم کو معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بی آر ٹی کی تحقیقات کے فیصلے پر حکم امتناع میں مزید توسیع

اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے 4 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا اور نیب کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکی تھیں۔

بعدازاں گزشتہ برس نومبر میں 2 درخواست گزاروں افضل کریم آفریدی اور عدنان آفریدی نے حیات آباد ٹاؤن شپ میں واقع اپنے گھروں کے ساتھ تعمیر شدہ منصوبے کے مخلتف حصوں پر پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس کے علاوہ ایڈووکیٹ عیسیٰ خان نے بھی عدالت سے استدعا کی تھی کہ منصوبے میں زیادہ سے زیادہ 100 میٹر کے فاصلے پر بالائی گزر گاہ یا زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر کا حکم دیا جائے۔

جس پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے 14 نومبر کو بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

بینچ نے 35 نکات تشکیل دے کر ایف آئی اے کو ان پر تحقیقات اور اس میں پائی جانے والی خامیوں پر کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات رکوانے سپریم کورٹ پہنچ گئی

11 دسمبر کو خیبرپختونخوا میں ایف آئی اے کی 5 رکنی خصوصی انکوائری ٹیم نے پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔

جس پر 24 دسمبر کو خیبرپختونخوا حکومت نے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور حکم امتناع حاصل کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں