پنجاب کے غیرتسلی بخش کارکردگی والے بیوروکریٹس کو نوٹسز ارسال

15 فروری 2021
وزیراعظم عمران خان نے افسران کی نااہلی کا نوٹس لیا تھا—فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیج
وزیراعظم عمران خان نے افسران کی نااہلی کا نوٹس لیا تھا—فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیج

اسلام آباد: صوبہ پنجاب میں عوامی شکایت کو نظر انداز کرنے یا ان پر کارروائی میں تاخیر پر ایک مرتبہ پھر بیوروکریٹس لپیٹ میں ہیں اور دفتر وزیراعظم سے کئی سینئر حکام کو اظہار وجوہ کے نوٹسز موصول ہوچکے ہیں۔

دفتر وزیراعظم کے مطابق پاکستان سٹیزن پورٹل پر عوامی شکایات کی طرف غیر تسلی بخش ردعمل یا کارروائی نہ کرنے پر مذکورہ افسران کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز اور انتباہی خطوط جاری کیے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاریہ اعلامیے میں کہا گیا کہ پنجاب کے اطلاعات، زراعت، ایکسائز اور آبپاشی کے سیکریٹریز سے ان کی کارکردگی بہتر بنانے کا کہا گیا ہے، مزید یہ کہ کابینہ کے اجلاس میں کچھ وفاقی وزرا کی جانب سے نشاندہی پر وزیراعظم کی جانب سے سرکاری افسران کی نااہلی کا نوٹس لیا گیا جس کے بعد کارروائی کا آغاز ہوا۔

مزید پڑھیں: پنجاب حکومت بیوروکریسی کے اعتماد کو بحال کرنے میں ’ناکام‘

اسی اثنا میں پنجاب کے چیف سیکریٹری جواد رفیق نے ایک ہزار 586 افسران کے ڈیش بورڈز کی جانچ پڑتال مکمل کی اور وزیراعظم کے ڈیلوری یونٹ (پی ایم ڈی یو) کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق 263 افسران کو انتباہی خطوط، 7 کو اظہار وجوہ کے نوٹسز اور 833 افسران کو مستقبل میں احتیاط برتنے کی ہدایت جاری کی گئی جبکہ 111 افسران سے وضاحت طلب کی گئی۔

مذکورہ رپورٹ میں 403 افسران کی کارکردگی کو سراہا بھی گیا۔

مزید برآں لاہور، گجرات اور شیخوپورہ سمیت 20 ڈپٹی کمشنرز کو خطوط لکھے گئے جبکہ رائیونڈ، جھنگ، بورےوالا، صادق آباد، ننکانہ صاحب اور پنڈی غیب سمیت 43 اسسٹنٹ کمشنرز کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے گیے۔

افسران کو ان کی کارکردگی بہتر بنانے کا کہتے ہوئے دفتر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انتباہی خطوط جاری کرنے کا مقصد انہیں خبردار کرنا تھا۔

دفتر وزیراعظم نے کہا کہ ’وزیراعظم کے وژن کے مطابق لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں‘۔

پی ایم ڈی یو کے مطابق دفتر وزیراعظم اور آرگنائزیشنز کی سطح پر نامزد فوکل پرسنز کے لیے 50 سے زائد بریفنگ سیشنز منعقد کیے گئے، اس کے علاوہ ’شکایات اور تجاویز سے نمٹنے کے لیے صارفین کی گائیڈلائنز مینول‘ اچھی طرح سے تیارہ کردہ مسودہ اور متعدد مشورے وقتاً فوقتاً جاری کیے گئے۔

تاہم ابتدائی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ مینول میں درج ہدایات کے مطابق نہ تو شکایات سے نمٹنا گیا اور نہ ہی مناسب سطح پر کوئی فیصلہ لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بیوروکریسی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ شہریوں کی شکایت پر ردعمل کا میعار ظاہر کرتا ہے کہ نظام کو ماتحتوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا گیا، جس میں اکثر فیصلے انہیں کی جانب سے لیے گئے۔

اس میں نشاندہی کی گئی کہ بہت سے حل شدہ شکایات میں خط/نوٹیفکیشن/تصویر کی کمی تھی جبکہ کچھ غلط درخواستوں پر چھوڑ دی گئیں، مزید یہ کہ بہت سی کا غیرمجاز سطح پر فیصلہ کیا گیا اور شکایت کنندہ کو صرف جواب دینے میں غیرضروری وقت ضائع کیا گیا۔

پی ایم ڈی یو نے چیف سیکریٹریز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے کہا تھا کہ 20 ویں تک یا اس سے اوپر کے افسر کی سربراہی میں ایک مخصوص کمیٹی کی تشکیل کے ذریعے ٹارگڈڈ افسران کے ڈیش بورڈ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، کمیٹی کو کہا گیا تھا کہ وہ مذکورہ افسران کے ڈیش بورڈ کی کارکردگی کا جائزہ لیں، خامیوں اور اچھی اور بری کارکردگی کے حامل افسران کی نشاندہی کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں