پاکستان کوسٹ گارڈز کو ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار نہیں، ہائی کورٹ

اپ ڈیٹ 16 فروری 2021
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ پاکستان کوسٹ گارڈز کی جانب سے اس طرح کے ناجائز اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ پاکستان کوسٹ گارڈز کی جانب سے اس طرح کے ناجائز اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے فیصلہ دیا ہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈز (پی سی جی) کو منشیات فروشی کے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار نہیں ہے اور انہیں ضبط شدہ منشیات سمیت گرفتار کرنے کے بعد قریبی پولیس اسٹیشن کے انچارج کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس نذر اکبر اور جسٹس ذوالفقار احمد خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے پاکستان کوسٹ گارڈ اور انسداد منشیات فورس کے ڈائریکٹرز جنرل اور سندھ پولیس کو حکم دیا کہ پاکستان کوسٹ گارڈز کی جانب سے اس طرح کے ناجائز اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان سے منشیات کا مکمل خاتمہ کریں گے، وزیر مملکت

اس میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کوسٹ گارڈز کے ذریعے درج تمام زیر التوا مقدمات کی تفتیش کے ساتھ ساتھ قانونی چارہ جوئی کے معاملات کنٹرول آف نارکوٹکس ایکٹ (سی این ایس) کے مطابق سختی سے دیگر مستند تحقیقات اور پروسیکیوشن ایجنسیز کو بھی منتقل کیے جائیں۔

بینچ نے انہیں سندھ ہائی کورٹ کی رکن انسپیکشن ٹیم کے توسط سے 30 دن کے اندر تحریری طور پر اس حوالے سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی کہ عدالتی فیصلے پر پیروی کے لیے انہیں کیا انتظامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ بینچ ایک شخص کی اپیل کی سماعت کررہا ہے جس کی عبدالرحمٰن کے نام سے شناخت ہوئی تھی اور 2019 میں سی این ایس کے تحت خصوصی عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی کیونکہ اس پر 2013 میں ایک ٹرک میں تقریباً 100 کلوگرام چرس لے جانے کا جرم ثابت ہوا تھا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ کے مقدمے کے مطابق پاکستان کوسٹ گارڈز فیلڈ انٹیلیجنس یونٹ، کراچی کے کمانڈنگ آفیسر نے گشت اور نگرانی کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دی تھیں، ان میں سے ایک نے اپیل کنندہ کو گرفتار کیا تھا اور سپر ہائی وے پر ٹرک سے چرس برآمد کی تھی، چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد پاکستان کوسٹ گارڈز نے ان پر ٹرائل کورٹ کے روبرو پیش کیا تھا۔

بینچ نے مزید کہا کہ اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ وہ کون سی صورتحال ہے جس نے کمانڈنگ آفیسر کو سپر ہائی وے پر ساحلی پٹی سے 28 کلومیٹر سے زیادہ کی دوری پر خفیہ نگرانی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ اس پر ججوں کو حیرت ہوئی کیونکہ علاقہ پہلے ہی ہائی وے پیٹرول پولیس، مقامی پولیس اور پاکستان رینجرز کی نگرانی میں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسمگلنگ روکنے کیلئے کسٹم، سیکیورٹی فورسز کے نئے دستے تشکیل دینے کا فیصلہ

اپیل کی اجازت دیتے ہوئے بینچ نے اپیل کنندہ کو بری کردیا اور مشاہدہ کیا کہ مبینہ چرس نہ تو اپیل کنندہ کے قبضے سے برآمد ہوئی اور نہ ہی اس ٹرک سے جو ایک سعد محمد کی ملکیت ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے بینچ نے کہا کہ سی آئی اے اہلکاروں کی طرح پاکستان کوسٹ گارڈز اہلکاروں کو بھی سی این ایس ایکٹ کی دفعہ 6، 7 اور 8 کے تحت جرم کی تحقیقات کرنے کے اختیارات استعمال اور اس سے قبل چارج شیٹ فائل کرنے کا پتا چلا ہے، ٹرائل کورٹ سی این ایس ایکٹ کی کسی بھی واضح شق کے بغیر قانون کے تحت ان فرائض انجام دینے کا اختیار دے گی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لہٰذا پاکستان کوسٹ گارڈز کی طرف سے اپیل کنندہ کے خلاف کسی بھی طرح سے کی جانے والی کارروائی قانون کے مطابق نہیں تھی، قانون کی یہ سنگین غلطیاں اپیل کنندہ کے خلاف پوری کارروائی کو غیر قانونی، کالعدم اور غیر قانونی قرار دیتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں