خبر پڑھی کہ حکومتِ سندھ نے کراچی سے مزید ٹیکس جمع کرنے کے منصوبے پر غور کرنا شروع کردیا ہے، جس کے لیے وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔ ناصر حسین شاہ کمیٹی کے سربراہ ہیں، اس لیے سب سے زیادہ غور انہیں ہی کرنا پڑ رہا ہوگا اور وہ دن رات غور میں مشغول ہوں گے، اتنے کہ آ آکر لوگ پوچھتے ہوں گے:

ساری بستی سوگئی ناصر

تُو کیوں اب تک جاگ رہا ہے

وہ مسکرا کر جواب دیتے ہوں گے ‘نئے ٹیکسوں پر غور کر رہا ہوں، بس ایک بار غور ختم ہونے دو، پھر دیکھنا، ناصر سوئے گا اور ساری بستی جاگے گی’۔

امید ہے اب تک بشمول ناصر صاحب پوری کمیٹی غور کرنا شروع کرچکی ہوگی، اور پورا یقین ہے کہ یہ غور کراچی والوں کو غیر سمجھ کر کیا جارہا ہوگا۔ ہم کمیٹی کے سربراہ ناصرحسین شاہ صاحب کو پہلے ہی آگاہ کردیں کہ آپ اس دُھن میں ہیں کہ ‘کس پر ٹیکس لگائیں ناصر کون پرایا ہے’ مگر نئے ٹیکس لگنے کا اعلان سُن کر کراچی والے واویلا کریں گے اور آپ سے عرض کریں گے:

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

‘گرانی’ بال کھولے سو رہی ہے

لیکن آپ اس واویلے پر ذرا غور مت کیجیے گا، بلکہ جواب دیجیے گا، ’ہم ایک زور کا ٹیکس لگاکر اس مہنگائی کو جگادیتے ہیں، اب خوش!’

یہ خبر پڑھ کر کہ کراچی پر نئے ٹیکس لگانے کے لیے پوری کی پوری کمیٹی بشمول ناصر حسین شاہ غور کر رہی ہے، ہم نے سوچا اتنے فعال وزیر اور اتنے سارے لوگوں کو غور پر لگادیا گیا ہے، حالانکہ کراچی والوں پر ٹیکس لگانے، انہیں چونا لگانے، تڑی لگانے، دھکا لگانے اور دیوار سے لگانے کے لیے کسی غور کی کیا ضرورت ہے۔ بلاوجہ اتنے سارے افراد کو غور کرنے پر لگادیا۔

ہم ناصر صاحب اور ان کی کمیٹی سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ غور کرکے خود کو نہ تھکائیں، یہ کام ہم کیے دیتے ہیں اور تجویز کردیتے ہیں کہ کراچی والوں پر کون کون سے نئے ٹیکس عائد کیے جائیں۔

گڑھا ٹیکس

کراچی والے سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں پر سفر کرکے کھانا ہضم کرتے ہیں اور اس سہولت کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔ حکومت فی الفور شہریوں پر گڑھا ٹیکس لگاکر وصولی شروع کردے۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ گڑھوں کی سہولت کے باعث حادثات ہوتے، لوگ زخمی اور گاڑیاں خراب ہوتی ہیں، جس سے لامحالہ ڈاکٹروں اور میکینکوں کا فائدہ ہوتا ہے، چنانچہ ڈاکٹروں اور میکینکوں پر الگ سے ‘گڑھا کمائی ٹیکس’ بھی عائد کیا جائے۔

کھڑا پانی ٹیکس

کراچی والے بھی عجیب ہیں، روتے رہتے ہیں کہ پانی آ نہیں رہا، اور جب پانی ’لو میں آگیا، کیا حکم ہے میرے آقا’ کہتا سڑکوں پر گلیوں میں آکر کھڑا ہوجائے، تو روتے ہیں کہ پانی جا نہیں رہا۔

پانی طلب کرکے اسے استعمال نہ کرنا بلکہ الٹا شاکی ہوجانا اہلِ کراچی کا وہ جرم ہے جس کی انہیں سزا ملنی چاہیے، یہ تو حکومت کی مہربانی ہے کہ وہ اس جرم کی سزا دینے کے بجائے ہر بار طلبِ آب پر رسدِ آب کا اہتمام کردیتی ہے۔ آخر شہریوں کی حکومت سے یہ زیادتی کب تک؟ صوبائی حکومت کھڑے پانی پر اتنا بڑا ٹیکس لگائے کہ لوگوں کے دل بیٹھ جائیں۔

کوڑا ٹیکس

صوبائی حکومت نے کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے یہ راز کسی کو نہیں بتایا کہ گلی گلی کوڑا جمع کرنا درحقیقت ٹیکس جمع کرنے کی مشق ہے، جس سے یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ جو حکومت کچھ نہ کرکے اتنا کوڑا جمع کرسکتی ہے، وہ کچھ کرکے کتنا سارا ٹیکس جمع کرلے گی!

کوڑے کے ان ڈھیروں سے شہری مستفید بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ پتا بتانے کے کام آتے ہیں، اب کراچی میں پتے یوں سمجھائے جاتے ہیں،

  • ’وہ جو کوڑے کی پہاڑی ہے نا، اس سے تیسری گلی میں چوتھا مکان ہے’،
  • ’سڑک سے الٹی طرف مڑو، دائیں ہاتھ پر کوڑے سے بھرا پلاٹ ہے، بس اس کی ساتھ والی گلی میں رہتا ہے آپ کا بھائی’۔

پھر ان ڈھیروں کو دیکھ کر حکومت کے بارے میں شہری جو کچھ کہتے ہیں وہ ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر حکومت مدعی بن کر شہریوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرلے تو اس مد میں اربوں روپے وصول کرسکتی ہے۔ چلیے یوں نہیں تو یوں سہی۔ حکومت شہریوں سے کوڑا ٹیکس وصول کرے، کچرے کو قابلِ استعمال بنانے کا اس سے اچھا نسخہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

کُھلا گٹر ٹیکس

حکومتِ سندھ ‘جب سب چھپاتے ہیں وہ ہم دکھاتے ہیں’ کے نعرے پر یقین رکھتی ہے۔ پورے فخر سے اپنی نمائش کرتا کوڑا اور حکومت کی اس شفاف پالیسی پر حیرت سے منہ کھولے گٹر اسی سرکاری کُھلے پَن کے آئینہ دار ہیں۔ اس شفاف پالیسی کے علاوہ گٹر کھلے ہونے کا سبب کراچی والوں سے حکومت کی محبت بھی ہے۔

حکمراں سوچتے ہیں کہ کراچی میں نہ کوئی دریا بہتا ہے، نہ چشمے نہ کوئی نہر، کم از کم یہاں گٹر ہی بہتے رہیں، شہری کچھ تو بہتا دیکھیں۔ حکومت کی جانب سے گلی گلی مہیا کی جانے والی اس تفریح پر ٹیکس لگنا چاہیے۔ بعض شہری گٹر میں گر کر اس بہاﺅ کو روکنے کا سبب بن جاتے ہیں، اس لیے حکومت گٹر میں گرنے پر بھاری ٹیکس لگائے۔

بلدیہ ٹیکس

کراچی میں بلدیہ عظمیٰ سے نچلی سطح تک کئی بلدیاتی ادارے ہیں۔ اس بلدیہ کو صوبائی حکومت نے اختیارات نچوڑنے کے لیے اتنے بَل دیے ہیں کہ اس کے سارے کَس بل نکل گئے ہیں۔

حکومتِ سندھ صرف اس خیال سے کہ شہریوں کو تسلی رہے کہ ان کے پاس ایک بلدیہ ہے، اس ادارے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ بھئی حکومت یہ بوجھ کیوں اٹھائے، تو فی الفور شہریوں پر بلدیہ ٹیکس عائد کردیا جائے۔ شہری چاہے اس پر کتنے ہی بل کھائیں، اور ان کے ماتھے پر بَل پڑتے ہیں تو پڑتے رہیں، لیکن ٹیکس لگا کر بلدیہ کو انہی کے بل پر چلایا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی والوں کے لیے اتنے ٹیکس کافی ہوں گے۔ یہ تو ہم اکیلے کے غور کردہ محصولات ہیں، سوچیے جب پوری کی پوری کمیٹی غور کرے گی تو کتنے مزید ٹیکس سامنے آئیں گے، جنہیں دیکھ کر کراچی کے شہری کہیں جا چھپیں گے، اور شہر کو ویران دیکھ کر سائیں ناصر حسین شاہ کہہ اٹھیں گے ‘شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں