افغانستان سے انخلا کی ڈیڈلائن پر عملدرآمد مشکل ہے، جو بائیڈن

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2021
ہم چلے جائیں گے، سوال یہ ہے کہ ہم کب روانہ ہوں گے، اقتدار سنبھالنے کے بعد جو بائیڈن کا پہلے پریس کانفرنس سے خطاب - فائل فوٹو:رائٹرز
ہم چلے جائیں گے، سوال یہ ہے کہ ہم کب روانہ ہوں گے، اقتدار سنبھالنے کے بعد جو بائیڈن کا پہلے پریس کانفرنس سے خطاب - فائل فوٹو:رائٹرز

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ طالبان سے معاہدے کے تحت افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے دی گئی یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر عمل درآمد کرنا 'مشکل' ہوگا تاہم امریکی فوج وہاں ہمیشہ کے لیے موجود نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جو بائیڈن نے کہا کہ 'حکمت عملی سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے یکم مئی کی آخری تاریخ کو پورا کرنا مشکل ہو گا، فوجیوں کا انخلا مشکل ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم چلے جائیں گے، سوال یہ ہے کہ ہم کب روانہ ہوں گے'۔

جب سوال کیا گیا کہ کیا وہ 2022 میں امریکی فوجیوں کو افغانستان میں دیکھتے ہیں تو امریکی صدر نے کہا کہ 'میں یہ نہیں دیکھا سکتا کہ ایسا کوئی معاملہ ہو'۔

مزید پڑھیں: طالبان کی افغانستان سے فوجی انخلا میں تاخیر پر امریکا کو 'سنگین ردعمل' کی دھمکی

صدر نے اپنے دفتر میں 100 روز کے دوران امریکا میں کووڈ 19 کے خلاف 20 کروڑ ویکسینیشن کے عمل کا ایک نیا مقصد طے کیا اور عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس کے انعقاد کے بعد معاشی ترقی کا دعوٰی کیا۔

وائٹ ہاؤس میں پیش ہوتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے دفتر سنبھالنے کے 100 روز میں 10 کروڑ ویکسینیشن کا ابتدائی ہدف گزشتہ ہفتے شیڈول سے 42 دن پہلے ہی حاصل کرلیا تھا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ 'میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل ہے اور جو ہمارا اصلی ہدف تھا اس سے دو گنا زیادہ ہے تاہم دنیا کا کوئی دوسرا ملک اس کے قریب بھی نہیں آیا'۔

انہوں نے اس خبر کے ساتھ معاشی ترقی کا بھی دعویٰ کیا کہ بے روزگاری انشورنس کا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیٹو نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کو مؤخر کردیا

ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی بھی بہت سارے امریکی کام نہیں کر رہے ہیں، بہت سارے خاندانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے اور ابھی بہت کام کرنا باقی ہے تاہم میں امریکی عوام سے کہہ سکتا ہوں، آپ کی مدد کی جائے گی اور اُمید بھی نظر آرہی ہے'۔

جو بائیڈن نے امریکی کانگریس میں ریپبلکنز سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے یا 'تقسیم کی سیاست کو جاری رکھنے' میں مدد کریں کیونکہ وہ بندوقوں کے کنٹرول، ماحولیاتی تبدیلی اور امیگریشن اصلاحات جیسے امور پر غور کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مجھے مسائل حل کرنے کے لیے رکھا گیا ہے، نہ کہ تفرقہ پیدا کرنے کے لیے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں