گلگت-بلتستان: جنگل کی کٹائی کی روک تھام کیلئے ایف سی تعینات

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2021
تعیناتی سے سرکاری اور برادی کی ملکیت والے جنگلات میں درخت کاٹنے اور نقل و حمل کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے، چیف کنزرویٹر - فائل فوٹو:رائٹرز
تعیناتی سے سرکاری اور برادی کی ملکیت والے جنگلات میں درخت کاٹنے اور نقل و حمل کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے، چیف کنزرویٹر - فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: گلگت-بلتستان میں غیر قانونی درختوں کی کٹائی (لاگنگ) روکنے کے لیے پاکستان نے پیرا ملٹری فورسز تعینات کردیں تاکہ منظم گروہوں کو درختوں کو کاٹنے اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کرنے سے روکا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کو محکمہ جنگلات کی حمایت کے لیے پولیس افسران کی قیادت میں جنوری میں تعینات کیا گیا تھا جس کے عہدیداروں کے مطابق عملے میں تربیت اور مالی اعانت کی کمی ہے۔

چیف کنزرویٹر ذاکر حسین کا کہنا تھا کہ جب دنیا بھر کے جنگلات میں کورونا وائرس وبا کے دوران تجاوزات میں اضافہ دیکھا گیا ہے وہیں گلگت بلتستان میں غیر قانونی لاگنگ ایف سی کے آنے کے بعد سے رک گئی ہے۔

مزید پڑھیں: محکمہ جنگلات کی ذمہ داری درخت بچانا یا کاٹنا؟

ذاکر حسین، جن کا محکمہ جنگلات، پارکس اور وائلڈ لائف قانون نافذ کرنے والے اس ادارے کے امور دیکھ رہا ہے، نے بتایا کہ سرکاری اور برادری کی ملکیت والے جنگلات میں درخت کاٹنے اور نقل و حمل کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'مقامی لوگ فورس کا احترام کر رہے ہیں، اس کی تعیناتی جنگلات کی کٹائی کے روکنے میں مددگار ہے اور جنگلات کے عملے کے حوصلے بلند کر رہی ہے'۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے بتایا کہ آئندہ 3 سالوں میں لکڑی کی غیر قانونی کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے جنگل سے نکلنے والے ہر ایک راستوں پر 36 ارکان کے ساتھ چار پلاٹون چوکیوں پر تعینات رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف سی باقاعدگی سے گشت کرتی ہے اور ان کے پاس درختوں کی کٹائی یا اس کی منتقلی میں ملوث افراد کو پکڑنے کا اختیار ہے۔

2015 میں شائع ہونے والی حالیہ قومی جنگلاتی پالیسی کے مطابق پاکستان میں لکڑی کی مانگ اس کی ممکنہ پائیدار فراہمی سے 3 گنا زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کے پی میں درختوں کی کٹائی پر پابندی

اس پالیسی میں کہا گیا کہ ملک میں سالانہ تخمینہ لگ بھگ 66 ہزار 700 ایکڑ درخت ضائع ہوجاتے ہیں، خاص طور پر نجی اور برادری کی ملکیت والے قدرتی جنگلات میں۔

انہوں نے کہا کہ 'جنگلات کے مالکان اور مقامی کمیونٹی جنگلات پر انحصار کرتے ہیں جو ان کے معاش کا واحد ذریعہ ہیں، اس کے نتیجے میں تمام صوبوں بالخصوص گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں جنگلات شدید دباؤ میں ہیں'۔

کم اور غیر تربیت یافتہ عملہ

ذاکر حسین نے کہا کہ اس خطے میں غیر قانونی لاگنگ کے ذمہ دار دو اہم گروہوں میں ایک مقامی برادری ہے جو بنیادی طور پر درختوں کو کھانا پکانے، آگ جلانے کے لیے کاٹتے ہیں اور ایک طاقتور 'ٹمبر مافیا' ہے جو پاکستان کے دیگر حصوں میں لکڑی کے تاجروں کو غیر قانونی طور پر لکڑی فروخت کرتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جغرافیہ اور انفرا اسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں پیچیدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خطہ سیکڑوں وادیوں پر مشتمل ہے جس کے ساتھ کوئی پکی سڑکیں نہیں جڑی ہوئی ہیں اور متعدد علاقوں میں انٹرنیٹ یا فون نیٹ ورک تک نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ماحول دوست مینگرووزسے ہماری دشمنی کیوں؟

ذاکر حسین کا کہنا تھا کہ ان مسائل میں سب سے بڑھ کر گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات میں اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ وہ اس خطے کے لاکھوں ہیکٹر پر بنے قدرتی جنگل کی نگرانی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے کے فاریسٹ ایکٹ 2019 کے تحت محکمے کو غیر قانونی طور پر لاگنگ کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے، تفتیش کرنے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اختیار دیا گیا تھا تاہم اس اقدام کو ابھی تک کابینہ نے منظور نہیں کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں