چیئرمین نیب کی ’لیک ویڈیو‘ کے معاملے پر قومی اسمبلی میں احتجاج

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2021
اسپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس کی کارروائی دو مرتبہ معطل کرنی پڑی۔ —فائل فوٹو: ڈان نیوز
اسپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس کی کارروائی دو مرتبہ معطل کرنی پڑی۔ —فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف ہراسانی سے متعلق ایک درخواست کو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے 'خارج' کرنے کے معاملے میں اپوزیشن نے احتجاج کیا جس کے بعد کورم پورا نہ ہوسکا اور حکومت کو وقفہ سوالات کے بغیر ہی اسمبلی کا سیشن طویل کرنا پڑا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر کی جانب سے ایوان کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس نے ایک خاتون اور ان کے اہلخانہ کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے ہراساں کرنے کی شکایت کو 'خارج' کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں شور شرابے کے دوران ایف اے ٹی ایف سے متعلق 2 بلز منظور

جس پر اپوزیشن کے اراکین نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان پر تنقید کی اور اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے معاملہ ہاؤس کمیٹی کے حوالے کرنے سے انکار پر احتجاج کیا۔

بعدازاں اسپیکر نے نماز عصر کے لیے 20 منٹ کے وقفے کا اعلان کیا۔

تاہم جب ایوان کی کارروائی 30 منٹ کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو اپوزیشن کی متعدد خواتین ممبران اسپیکر کے ڈائس کے گرد جمع ہوگئیں۔

خواتین نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کے بیان پر سخت تنقید کی، جنہوں نے معاملے کو کمیٹی کے حوالے کرنے کے مطالبے کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ یہ بھی الزام لگایا تھا کہ اپوزیشن ارکان اس معاملے کو صرف نیب پر دباؤ ڈالنے کے لیے اٹھا رہے ہیں جو ان کی قیادت کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت کررہا ہے۔

جس کے بعد اپوزیشن اراکین واک آؤٹ کرگئے اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شاہدہ رحمانی نے کورم نہ مکمل ہونے کی نشاندہی کی۔

اس پر اسپیکر دوبارہ کارروائی معطل کرنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کا شدید شور شرابا

بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی 25 منٹ کے بعد صرف صدارتی آرڈیننس پڑھنے کے لیے واپس آئے۔

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب کراچی سے پی پی پی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل نے نیب کے چیئرمین کے خلاف طیبہ نامی خاتون کی وزیر اعظم آفس کے پاکستان سٹیزن پورٹل (پی سی پی) پر مئی 2019 میں پوسٹ کی گئی شکایت کے بارے میں سوال کیا۔

وزیر کے سوال پر انہیں جواب ملا کہ شکایت 'خارج کردی گئی' ہے کیونکہ یہ مزید کارروائی کے لیے نا مناسب ہے۔

تحریری جواب میں کہا گیا چونکہ پی سی پی شکایت پر کارروائی کی اہلیت نہیں رکھتا لہذا اسے 2 جولائی 2019 کو سسٹم سے خارج کردیا گیا۔

جواب میں شکایت کا متن بھی پیش کیا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ چیئرمین نیب مجھے اور میرے اہل خانہ کو پریشان کررہے ہیں۔

شکایت میں کہا گیا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال میرے اور میرے شوہر کے خلاف جعلی مقدمات صرف اس لیے بنا رہے ہیں کہ میں نے چیئرمین نیب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنایا۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: اپوزیشن کے شور شرابے میں سی پیک اتھارٹی سمیت 3 بل منظور

خاتون نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ نیب مجھے دھمکیاں دے رہا ہے، میں لا کی طالب علم ہوں اور وہ اس طرح عورت کی بے عزتی کیسے کرسکتے ہیں؟

شکایت کنندہ نے کہا کہ وہ اخلاقی طور پر بیمار شخص ہیں، میرے پاس اس کے خلاف تمام ویڈیوز اور آڈیو ریکارڈنگ موجود ہیں، میں ویڈیوز کے کچھ اسکرین شاٹس منسلک کررہی ہوں۔

قادر پٹیل نے الزام لگایا کہ حکومت شکایت کنندہ کو غلط جواب دے رہی ہے کیونکہ خاتون کو بتایا گیا تھا کہ اس کی شکایت وزارت انسانی حقوق کو بھیج دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاتون کی جانب سے 10 مئی 2019 کو پی سی پی پر شکایت درج کی گئی تھی اور نیب کے چیئرمین کی متنازع آڈیو اور ویڈیوز 17 مئی کو مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

پیپلز پارٹی کے ایم این اے نے کہا کہ نیب کے چیئرمین نے ایک نیوز کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ انہیں خاتون اور اس کے شوہر کے ذریعے بلیک میل کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے تین سوالات ہیں، پی سی پی اس ویڈیو کو کیسے لیک کرسکتا ہے؟ یہاں کیوں غلط جواب داخل کیا گیا اور اب خاتون کو انصاف کے حصول کے لیے کہاں جانا چاہیے؟

قادر پٹیل نے کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ نیب کے پاس سیاستدانوں سمیت کسی کو بھی ہراساں کرنے کا لائسنس ہے لیکن کوئی بھی اس سے سوال نہیں پوچھ سکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں