قومی اسمبلی میں شور شرابے کے دوران ایف اے ٹی ایف سے متعلق 2 بلز منظور

اپ ڈیٹ 29 جولائ 2020
اجلاس کے دوران وزیر خارجہ نے بولنے کی کوشش کی تو سخت شور شرابہ دیکھنے میں آیا — فائل فوٹو: اے پی پی
اجلاس کے دوران وزیر خارجہ نے بولنے کی کوشش کی تو سخت شور شرابہ دیکھنے میں آیا — فائل فوٹو: اے پی پی

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن اور حکومتی بینچز کی جانب سے سخت شور شرابے کے باوجود حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق 2 بلز ایوان سے منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی۔

پارلیمان کے ایوان زیریں کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں شروع ہوا جس میں وزیر خارجہ کی گزشتہ روز کی طویل تقریر کے جواب میں خواجہ آصف نے تقریر کی اور شاہ محمود قریشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سخت ریمارکس دیے۔

ان کی تقریر کے بعد متعدد مرتبہ شاہ محمود قریشی نے ذاتی وضاحت دینے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن نے کل موقع نہ ملنے کی وجہ سے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا اس دوران ایوان میں سخت شور شرابہ دیکھنے میں آیا اور ایوان کی کارروائی 3 مرتبہ ملتوی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے نیب آرڈیننس میں 35 ترامیم تجویز کیں، جو ممکن نہیں، وزیر خارجہ

بعدازاں اسی شور شرابے کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق 2 بل انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 اور اقوامِ متحدہ (سیکیورٹی کونسل) (ترمیمی) بل 2020 پر ووٹنگ کروائی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

وزیر خارجہ نے رازداری کی ساری حدود پار کردیں، خواجہ آصف

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر خارجہ نے طویل تقریر کی جو نہیں کرنی چاہیے تھی، اب ضرورت ہے کہ ہمارا موقف بھی عوام کے سامنے رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ چند روز قبل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس میں طے کیا گیا کہ قانون سازی کے حوالے سے بلز اس کمیٹی میں زیر غور لائے جائیں گے ساتھ ہی ایک غیر رسمی کمیٹی کے ذریعے اتفاق رائے کروانے کی کوشش کی گئی جس کے تحت اسپیکر کی رہائش گاہ پر 9 اراکین پر مشتمل غیر رسمی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

خواجہ آصف نے وزیر خارجہ پر ذاتی نوعیت کے ریمارکس دیے—تصویر: ڈان نیوز
خواجہ آصف نے وزیر خارجہ پر ذاتی نوعیت کے ریمارکس دیے—تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کا بل شق وار زیر غور لایا گیا، جس میں رائے دی گئی تھی مطالبات نہیں کیے گئے تھے لیکن وزیر خارجہ جو سیاستدان ہیں اور سیاستدان اس قسم کی رنگ بازی کرتے ہیں جو ہم بھی کرتے ہیں، اس رنگ بازی میں انہوں نے رازداری کی تمام حدود پار کردیں جس کا ایک مہذب معاشرے میں احترام کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مذاکرات نوٹیفائیڈ کمیٹی کی سہولت کے لیے تھے جسے ریکارڈ پر لانے کی ضرورت نہیں تھی، ان مذاکرات میں 2 بلز پر اتفاق رائے بھی ہوا لیکن اس کا انہوں نے ذکر نہیں کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کہ ہم نیب زدہ لوگ ہیں اور نیب قانون کو استعمال کر کے قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے 2 بلز پر اتفاق رائے ہوگیا تھا اور وہ غیر متنازع قرار پا چکے تھے لیکن قومی مفاد کے معاملات پر ہمیں اعتراض صرف یہ ہے کہ اس قسم کے تمام قوانین تاریخی طور پر ملک میں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں ہم اس روایت کا خاتمہ چاہتے ہیں کہ سیاسی حکومتیں ملکی اداروں اور قوانین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

مزید پڑھیں: نیب، ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر بات چیت ڈیڈ لاک کا شکار

انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں ہم نے کہا کہ ہم اور پیپلز پارٹی اپنے دورِ حکومت میں ان قانون کو صحیح کرسکتے تھے، ہم ریلیف نہیں چاہتے، ہمیں جو بھگتنا تھا وہ بھگت چکے ہیں اور بھگت لیں گے، ہمیں کوئی خوف نہیں ہے لیکن یہ اتنے ناعاقبت اندیش اور خوف کا شکار ہیں کہ ان کے اپنے صوبے (خیبرپختونخوا) میں نیب کے ڈائریکٹر جنرل نے استعفیٰ دے دیا۔

نیب کی یکطرفہ کارروائیاں صرف اپوزیشن پر لاگو ہوتی ہیں، خواجہ آصف

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ دوبارہ حکومت میں آئے احتساب کمیشن پر پابندی عائد کردی، ہم تو صرف ترامیم کی بات کررہے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پورے خیبرپختونخوا میں کوئی بے ایمان نہیں ہے، وہ جنت کا ٹکڑا ہے اور سارے فرشتے وہاں پر رہتے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر ان کا ایجنڈا بدعنوانی کے خلاف ہے تو ان کی صفوں میں ایسے بڑے بڑے مہا کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں جس کی مثال پاکستان کی کسی حکومت کے دور میں نہیں ملتی، اپنے صوبے میں احتساب کمیشن ختم کردیا ہے اور تمام کیسز بشمول بی آر ٹی، مالم جبہ کیس، بلین ٹری سونامی اور فارن فنڈنگ کیس میں استثنٰی ملا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر نیب لاگو نہیں ہوتا ہے نیب کی یکطرفہ کارروائیاں صرف اپوزیشن پر لاگو ہوتی ہیں۔

تقریر کو جاری رکھتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 3 راتیں قبل ہمیں رات کے اندھیرے میں نیب قانون کا مسودہ بھیجا گیا اس میں چیئرمین نیب اور دیگر عہدیداروں کی مدت ملازمین توسیع کی بات تھی، کل انہوں نے کہا کہ اس میں نہیں تھی حالانکہ اصل مسودے میں توسیع شامل تھی جسے دوسرے مسودے میں واپس لے لیا گیا، اس سے ان کی نیتیں معلوم ہوتی ہیں۔

خواجہ آصف کے مطابق حکومتی اراکین نے کہا کہ ہم 15 سال کا عرصہ حذف کرنا چاہتے ہیں اس پر ہم نے بتادیا کہ چاہے کسی بھی وقت سے کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جو 15 سال حذف کیے گئے اس وقت وزیر خارجہ ہمارے ساتھ تھے اگر ہمیں استثنٰی ملتا ہے تو انہیں بھی ملتا ہے۔

حکومتی ارکان کی کرپشن پر ریفرنس کیوں نہیں بنتے؟ خواجہ آصف

وزیر خارجہ کے گدی نشین ہونے کے تناظر میں ذاتی نوعیت کے ریمارکس دیتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آمدن اور اثاثوں میں قبروں سے حاصل ہونے والی کمائی بھی شامل ہونی چاہیے اگر میرے آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو ان کے قبروں سے زائد اثاثے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو سے متعلق آرڈیننس ایوان میں پیش، اپوزیشن کی پراسرار خاموشی

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بیٹھ کر لوگوں سے زیور حاصل کر کے جیبوں میں ڈالتے ہیں اور نوٹوں کی گڈیاں وصول کرتے ہیں اسے بھی نیب قانون میں شامل ہونا چاہیے، یہ سرِعام کرپشن کرتے ہیں، اسٹیج پر بیٹھ کر مذہبی نعرے لگاتے ہیں اور پیسے پکڑتے ہیں اور یہاں آکر ہمیں ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ شرافت پر لیکچر دیتے ہیں، شرم آنی چاہیے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے مزید کہا کہ پورا ملک کھا گئے، لوگوں نے پارٹی فنڈ کے لیے پیسے دیے انہوں نے اپنی جیب میں ڈال لیے، 6 سال ہوگئے وہ کیس زیر التوا ہے جس پر انہوں نے حکم امتناع حاصل کررکھا ہے کیوں کہ وہ کیس ان کے چہرے بے نقاب کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی آر ٹی تبدیلی کا مقبرہ بن چکی ہے اس پر احتساب کیوں نہیں ہوتا، ریفرنس کیوں نہیں بنتا، کل ایک روز کے اندر شاہد خاقان عباسی اور ان کے بیٹے، شہباز شریف، سلمان شہباز، حمزہ شہباز پر ریفرنس بن گیا، ان پر بھی قبروں کا ریفرنس بنائیں، فارن فنڈنگ، مالم جبہ، بی آر ٹی کا ریفرنس بنائیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ کہاں کا احتساب ہے، یہ احتساب نہیں ہے سیاسی انتقام ہے جس سے ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی بچیں اور ساری سیاسی برادری بچے۔

انہوں نے کہا بعض لوگ سیاسی ورکر کے نام پر دھبہ ہیں اور اس کی توہین ہیں ان کے حلیے بھی توہین ہیں، میں نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے زکوٰۃ کے 70 لاکھ ڈالر سے بیرونِ ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس پر وزیراعظم نے میرے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف اے ٹی ایف کو قومی تنازع نہیں بنانا چاہتے، چاہتے ہیں ملک گرے لسٹ سے نکلے بلیک لسٹ میں نہ جائے، ہم اس ملک کی بہتری چاہتے ہیں، معیشت کا فروغ چاہتے ہیں جہاں غریب آدمی کو روزگار ملے۔

آئندہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے، خواجہ آصف

تقریر کے دوران مخالف اراکین اسمبلی کی جانب سے جملے کسنے پر انہوں نے کہا کہ میں بعض لوگوں کی بات کا جواب دینا بھی معیوب سمجھتا ہوں کیوں کہ جس طرح کی وہ سیاسی پیداوار ہیں اس حادثے کو پوری قوم بھگت رہی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اگر نیب قانون کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں تو کریں زیادہ دیر باقی نہیں رہی، عصر کا وقت آگیا ہے مغرب ہونے والی ہے اور ساتھ ان کا زوال شروع ہونے والا ہے پھر یہی قانون ان پر لاگو ہوگا، اس کو اسی حالت میں رہنے دیں چاہیں تو مزید سخت کرلیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم نے مشرف کا نیب بھی بھگتا ہوا ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی پردہ داری تھی اس کو انہوں نے موضوع بنایا ہم آئندہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے ایک مرتبہ ذاتی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس قسم کی کمائی ہو وہ کمائی بولتی ہے، 2013 میں پی ٹی آئی میں جانے سے پہلے انہوں نے مجھ سے ملاقات کی، نواز شریف سے ملاقات کی اور پھر جنرل پاشا سے ملاقات کی اس کے بعد کی ساری کہانی آپ کے سامنے ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے ان کے بزرگوں کو بڑا لحاظ ہے لیکن کل ان کا رویہ پارلیمانی روایت کے خلاف تھا، ہم نے ایف اے ٹی ایف کے 2 بل پر اتفاق کیا اور ہمیں نیب ترمیم سے بھی کوئی فائدہ نہیں چاہیے۔

وزیر خارجہ نے یہ پیغام دیا کہ اپوزیشن کو صرف نیب سے دلچسپی ہے، راجا پرویز اشرف

بعدازاں اجلاس میں بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ حکومت کا ایک ہی مقصد ہے کہ نیب قانون میں ترمیم ہوجائے اور ان کی جان چھوٹ جائے اور اپنی پوری تقریر میں کل وزیر خارجہ نے صرف ایک بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حکومتی بینچز پر بیٹھے افراد ایماندار اور اپوزیشن اراکین بدعنوان ہے۔

راجا پرویز اشرف کا قومی اسمبلی میں  اظہارِ خیال—تصویر: ڈان نیوز
راجا پرویز اشرف کا قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال—تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ احتساب ہو لیکن سب کا ہو، لیکن وزیر خارجہ نے کل احتساب آرڈیننس ہمارے ہاتھ میں تھما کر کہا کہ ان کو اس کے علاوہ کوئی لینا دینا نہیں ہے اور عوام کو یہ پیغام پہنچایا کہ ایف اے ٹی ایف قومی مفاد کا معاملہ ہے لیکن اپوزیشن کی دلچسپی نیب آرڈیننس میں تھی، ایف اے ٹی ایف سے متعلق نہیں تھی۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ وزیر خارجہ سے پوچھتا ہوں کہ ایف اے ٹی ایف کا بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں کب آیا؟ پھر جواب بھی خود دیتے ہوئے کہا کہ 6 ماہ سے یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں موجود تھا لیکن اس پر بات اس لیے نہیں ہوسکی کیوں کہ حکومت کہتی تھی مشیر خزانہ دستیاب نہیں ہیں۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ آج کہہ رہے ہیں کہ بہت ہنگامی صورتحال ہے اس سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ حکومت کے ایک مشیر کے پاس وقت نہ ہونے کی وجہ سے 6 ماہ سے اس بل پر کارروائی نہیں ہوئی، آج آپ چیخ چیخ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور سارا الزام ہم پر ڈال دیتے ہیں۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 2 سال سے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کرپشن کا، مان لیتے ہیں کہ آپ بہت ایماندار ہیں لیکن پاکستان کے عوام یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا نیب کے قانون زد میں سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی آئی اسے ہم سب نے بھگتا ہے اور یہ قانون جس نے بھی بنایا ہے کوئی نہیں بچے گا آج ہم کل یہ پرسوں آپ، باری سب کی آئے گی کل مسلم لیگ (ن) والے کہتے تھے کہ سارے اسکینڈلز پی پی پی کے ہیں آج ان کے بھی اسکینڈلز آگئے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کیا وزیر خارجہ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ صرف حکومتی بینچز پر بیٹھنے والے محب وطن اور باقی محب وطن نہیں ہیں اور سارے کرپٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے اراکین کا احتساب نہیں ہوتا صرف اپوزیشن کا ہوتا ہے میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ برداشت کریں کیوں کہ حکومت جس راستے پر چل رہی ہے اس میں نظر آرہا ہے کہ بہت جلد ان کی بولتی بند ہونے والی ہے۔

رہنما پی پی پی نے کہا کہ کوئی احتساب نہ چھوڑیں لیکن اگر فیصلے عدالتوں میں ہونے ہیں تو ایوان میں بدعنوان کے نعرے نہیں لگائے جائیں اور اگر فیصلہ یہیں کرنا ہے تو پھر ہم بھی دلائل اور ریکارڈ لے آتے اور اسپیکر منصف بن جائیں یہاں فیصلہ کرلیں لیکن اگر یہ وہ فورم نہیں ہے تو پھر اس ایوان کا جو کام ہے وہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سوائے ایوان میں شور شرابے، تذلیل، نئے نئے لفظ ایجاد کرنے کے سوا کیا کیا ہے؟

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے پارلیمان کی عزت خاک میں ملادی، سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے، جمہوریت کو سوالیہ نشان بنادیا ہے، ان کے پاس کوئی سوچ، کوئی پالیسی کوئی پروگرام نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں