سفارتخانے کے مشورے کے باوجود فرانسیسی شہریوں کا پاکستان چھوڑنے سے انکار

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2021
فرانس نے 2 روز قبل شہریوں کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا—فوٹو:اے ایف پی
فرانس نے 2 روز قبل شہریوں کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا—فوٹو:اے ایف پی

ملک بھر میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے پرتشدد احتجاج کے بعد فرانسیسی سفارت خانے کی جانب سے اپنے شہریوں اور کمپنیوں کو پاکستان چھوڑنے کی ایڈوائزری کو فرانسیسی شہریوں نے نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان سے جانے سے انکار کردیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق 2 روز قبل اسلام آباد میں واقع فرانسیسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو 3 سطروں پر مشتمل ایک مختصر ایک میل ارسال کی تھی جس میں 'فوری' طور پر ملک میں مقیم فرانسیسی شہریوں اور کمپنیوں کو 'سنگین خطرات' کے باعث عارضی طور پر پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

ای میل میں خطرات کی نوعیت نہیں بتائی گئی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان میں مقیم چند سو افراد پر مشتمل فرانسیسی کمیونٹی کو دھچکا پہنچا اور وہ تشویش کا شکار ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: فرانسیسی سفارتخانے کا اپنے شہریوں اور کمپنیوں کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ

جین- مائیکل کوارانٹوٹی جو اسلام آباد میں واقع امریکن اسکول میں گزشتہ 3 برس سے فرنچ زبان پڑھاتے ہیں، انہیں سفارتخانے کی ایڈوائزری کے حوالے سے سب سے پہلے ایک طالبعلم نے مطلع کیا تھا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ' میں آپ سے چھپاؤں گا نہیں کہ پہلے تو یہ سن کر مجھے خوف محسوس ہوا تھا'۔

جین مائیکل نے کہا کہ 'میں پہلی مرتبہ بیرونِ ملک نہیں آیا، پاکستان پہنچنے سے پہلے میں نے بہت کچھ کیا تھا لیکن مجھے واقعی حیرت ہوئی کیونکہ مجھے اس کی توقع نہیں تھی'۔

انہوں نے پہلے تو سب کچھ سمیٹ کر ملک چھوڑنے کا سوچا تھا لیکن اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد ارادہ بدل دیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

جین مائیکل نے بتایا کہ'میرے اردگرد موجود پاکستانیوں نے مجھے یہیں رہنے کا مشورہ دیا، انہوں نے مجھے کہا کہ وہ میری حفاظت کریں گے'۔

انہوں نے کہا کہ ' اس یکجہتی نے میرے دل کو چھولیا، ان لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ 'ہم یہاں آپ کے لیے موجود ہیں، آپ پریشان نہ ہوں، ہم آپ کا دفاع کریں گے'۔

خیال رہے کہ 12 اپریل کو لاہور میں ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد ملک میں 3 روز تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد فرانسیسی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو یہ مشورہ دیا تھا۔

اس رپورٹ کے لیے اے ایف پی نے جن فرانسیسی شہریوں سے رابطہ کیا، ان سے سفارتخانے کے پیغام کا وقت بھی پوچھا گیا کیونکہ اسی روز حکومت پاکستان نے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا اور صورتحال قابو میں تھی۔

'پاکستان بہت اچھا ملک ہے'

جین- مائیکل کوارانٹوٹی نے کہا کہ ' جی ہاں، یہاں رہنے میں بہت سے خطرات ہیں لیکن ہمیں فرانسیسی کمیونٹی کو الفاظ کے غلط استعمال سے دہشت زدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ' ہمیں تھوڑی حیرت ہوئی کہ فرانس کو یہ پیغام بین الاقوامی سطح پر شائع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی حالانکہ وہ یہ پیغام مقامی کمیونٹی کو محتاط انداز میں دے سکتے تھے'۔

جین مائیکل کے ساتھی جولین (فرضی نام کیونکہ وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے) نے بھی پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک تجویز ہے لہذا میں نہیں جاؤں گا'۔

مزید پڑھیں:مختلف مقامات پر ٹی ایل پی کا احتجاج، تشدد سے پولیس کانسٹیبل ہلاک، املاک نذر آتش

جولین جس کمپہنی میں کام کرتے ہیں اس نے انہیں یورپ واپس بھیجنے یا گھر کے باہر مسلح محافظ تعینات کرنے کی پیشکش بھی کی جسے انہوں نے مسترد کردیا۔

اسلام آباد میں مقیم فرانسیسی شہری نے کہا کہ ' ویسے بھی اکتوبر، نومبر سے حالات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں لہذا ہم اس کے پرسکون ہونے کا انتظار کریں گے'۔

دوسری جانب لگ بھگ 2 ماہ قبل پاکستان آنے والے ورلڈ بینک کے کنسلٹنٹ لارنٹ کنوٹ نے کہا کہ صورتحال کی نگرانی کی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'عام پاکستانیوں سے کوئی خطرہ نہیں لیکن صرف ٹی ایل پی سے ہے'۔

لاہور میں مقیم ایک اور فرانسیسی شہری (جنہیں نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ) پاکستان میں تقریباً 10 سال کا عرصہ گزار چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'چونکہ میں یہاں ایک طویل عرصے سے ہوں تو میں واقعی خوف کا شکار نہیں ہوا'۔

تاہم وہ اے ایف پی کی جانب سے رابطہ کیے گئے واحد فرانسیسی شخص ہیں جو اپنے آجروں کے حکم پر ملک چھوڑیں گے۔

لارنٹ کنوٹ کے مطابق سفارتخانے کے اس پیغام سے پاکستان کا ایک اور منفی تاثر فرانس جائے گا جس کے اثرات بدقسمتی سے اچھے نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ (پاکستان) ایسے سلوک کا حق نہیں رکھتا کیونکہ ، ایمانداری سے، یہ ایک بہت اچھا ملک ہے جہاں کے لوگ بہت دلچسپ اور مہربان ہیں'۔

ٹی ایل پی کا فرانس کے خلاف احتجاج

خیال رہے کہ ایک فرانسیسی میگزین کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر صدر ایمانوئیل میکرون کی حمایت کے بعد کئی ماہ سے پاکستان میں فرانس مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔

مذکورہ اقدام کے بعد ملک بھر میں شہریوں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی تھی اور اس سلسلے میں مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے بھی فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔

جس پر حکومت نے گزشتہ برس 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔

جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بہت سے مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی تھی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں فریقین کا نقصان ہوا تھی۔

3 روز تک جاری رہنے والے احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں