حکومت چاہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2021
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت میں جھوٹ بولے گئے وہ سامنے لانا چاہتا ‏ہوں — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت میں جھوٹ بولے گئے وہ سامنے لانا چاہتا ‏ہوں — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی جبکہ حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائزعیسٰی ‏نظرثانی کیس کی سماعت کی۔

مذکورہ سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ابتدائی دلائل میں کہا کہ ‏فروغ نسیم نے کہا خاتون کی شناخت شوہر سے ہوتی ہے، سرینا عیسیٰ ذرائع آمدن ‏بتادیں، وزیر قانون نے تمام خواتین کی توہین کی۔

ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا کہ علیمہ خان نے ‏سلائی مشین سے لاکھوں پاؤنڈز بنائے، عدالت میں جھوٹ بولے گئے وہ سامنے لانا چاہتا ‏ہوں۔

سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن جائیدادوں کے ریکارڈ میں جسٹس فائز عیسیٰ کا ‏نام نہیں، لندن جائیدادوں کے لیے فنڈز کی منتقلی میں بھی میرے شوہر کا کردار نہیں، ‏کیس میں فریق نہیں تھے پھر بھی میرے اور بچوں کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔

جسٹس ‏عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نام سپریم جوڈیشنل کونسل میں جاری انکوائری میں ‏سامنے آیا، اس میں شک نہیں کہ آپ عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئی ہیں جبکہ مقدمہ ‏غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذرائع آمدن کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کیس کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی، جوڈیشل کونسل کے رویے کے بعد ریفرنس کو چیلنج کیا۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ لندن جائیدادوں کا ‏ریکارڈ سپریم کورٹ کو فراہم کیا تھا۔ ‏

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹیکس کمشنر نے انکوائری کی جبکہ عدالت نے رپورٹ ‏چیئرمین ایف بی آر سے مانگی تھی، ایف بی آر نے سربمہر رپورٹ سیکریٹری جوڈیشل ‏کونسل کو دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ کو ریاستی راز بنا کر رکھا گیا ہے، مجھے رپورٹ کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی، حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔

عدالتی حکم پر سیکریٹری سپریم جوڈیشل ‏کونسل نے ایف بی آر رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ‏کہ رپورٹ کی کاپی کروا کر آپ کو بھی دیں گے۔ ‏

مزید پڑھیں: نظرثانی کیس: سپریم کورٹ نے براہِ راست کوریج کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر پی ٹی آئی کے رکن اور غیر منتخب شخص ہیں، عدالت میرے متعلق فیصلے میں لکھی گئی آبزرویشن حذف ‏کرے، شہزاد اکبر عمران خان کی متوازی حکومت چلا رہے ہیں، میں اور میرے بچے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم عمران خان ‏پر بھی انکم ٹیکس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ‏ظاہر نہیں کیے، وہ بطور وزیر اعظم عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ الزام لگایا ‏کہ عمران خان نے ٹیکس گوشواروں میں سچ نہیں بولا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ‏کہ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، آپ کے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں، آپ کا معاملہ صرف کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے لندن جائیدادوں کے مشترکہ مالک ہیں۔

جسٹس ‏منیب اختر نے کہا کہ اصل بات فنڈز کے ذرائع ہیں۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اس سے فرق ‏نہیں پڑتا کہ گھر میں کون کتنے پیسے دے رہا ہے، میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ‏گئی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایف بی آر کے مطابق لندن جائیدادوں کی قیمت 7 ‏لاکھ 51 ہزار پاونڈ ہے، ایف بی آر نے تسلیم کیا ہے کہ آپ نے اتنی رقم بھجوائی۔

سرینا ‏عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ٹیکس کمشنر نے میرے فارن کرنسی اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کیں، ‏میرے فارن کرنسی اکاؤنٹ کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

کیس کی مزید سماعت کل تک ‏ملتوی کر دی گئی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

مذکورہ بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی اپیل کی بھی سماعت کی جس کے دلائل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دیے تھے۔

مذکورہ درخواست پر 18 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے 13 اپریل کو سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں