اسلام آباد میں ریپ کے مقدمات میں بریت کی شرح 80 فیصد

اپ ڈیٹ 21 مئ 2021
بنیادی طور پر ناقص تفتیش، کمزور استغاثہ اور عدالت سے باہر تصفیے کی وجہ سے مقدمات میں مجرمان کو بری کردیا گیا، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی
بنیادی طور پر ناقص تفتیش، کمزور استغاثہ اور عدالت سے باہر تصفیے کی وجہ سے مقدمات میں مجرمان کو بری کردیا گیا، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے ملک میں ریپ جیسے جرائم کی لعنت کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی اور کوششوں کے باوجود وفاقی دارالحکومت کی عدالت میں زیر سماعت اس طرح کے واقعات کی تعداد 200 سے زائد ہوگئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ بنیادی طور پر ناقص تفتیش، کمزور استغاثہ اور عدالت سے باہر تصفیے کی وجہ سے مقدمات میں تقریباً 80 فیصد ملزمان کو بری کیا گیا۔

حکومت نے حال ہی میں تمام سیشن ججز کو ریپ کے مجرمان کے مقدمے چلانے کے لیے بااختیار بنانے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا ہے۔

تاہم فی الحال صرف ایک اضافی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) عطا ربانی کو ریپ کے کیسز میں شکایات پر سماعت کا اختیار ہے۔

مزید پڑھیں: 'ریپ کی روک تھام کیلئے نئے قوانین نہیں، قانون کا روح کے مطابق عمل درآمد ضروری'

وزارت قانون نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایک نوٹیفکیشن ارسال کیا ہے جس میں تمام سیشن ججز کو ایسی شکایات سننے کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس سال جنوری سے اب تک 46 کیسز کا فیصلہ اے ڈی ایس جے عطا ربانی نے کیا ہے۔

سیشن عدالت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مارچ میں عدالت نے 13 مقدمات میں سے صرف ایک کیس میں ملزم کو سزا سنائی اور تین مقدمات میں ملزمان کو اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ 9 مقدمات میں ملزم کو بری کردیا گیا۔

اسی طرح اپریل میں بھی 14 میں سے 13 مقدمات میں ملزمان کو بری کردیا گیا تھا اور ایک کیس میں عدالت نے ملزم کو مبینہ طور پر مجرم قرار دیا کیونکہ وہ تفتیش میں شامل نہیں ہوا تھا۔

اپریل میں آٹھ کیسز میں ملزمان کو مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے ہی بری کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی 'دفعہ 256 کے' کے تحت درخواستیں دائر کیں اور کمزور شواہد کی بنیاد پر بریت طلب کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: 6 سالہ بچی کا ریپ کرنے والا 70 سالہ ملزم گرفتار

ایک کیس میں عدالت نے شکایت کو خارج کردیا کیونکہ شکایت کنندہ عدالت سے باہر تصفیہ کی وجہ سے مجرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

مئی میں عدالت نے اب تک تین مقدمات کا فیصلہ کیا ہے اور تمام کیسز میں ملزمان کو بری کیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال چار مہینوں میں زیادتی اور اغوا کے 200 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں زیادتی کے مجموعی 167 کیسز درج ہوئے تھے۔

عدالتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں ناقص تفتیش، اعلیٰ عہدیداروں کی مناسب نگرانی کا فقدان، کم تنخواہ والے تفتیشی افسران کے لیے معمولی وسائل اور کمزور استغاثہ بریت کی زیادہ تر وجہ بنی۔

مزید پڑھیں: اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل

سینئر وکیل سید نایاب حسن گردیزی نے کہا کہ حکومت نے ریپ کے خلاف قانون نافذ کردیا ہے لیکن اس پر پولیس سمیت متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو عمل درآمد کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان شکایات کے اندراج کی حوصلہ شکنی کی جس سے ان مجرمان کی حوصلہ افزائی ہوئی جو سزا دیئے جانے کے خوف کے بغیر اس طرح کے گھناؤنے جرم کو دوہراتے رہے۔

ان کے مطابق یہی بنیادی وجہ ہے کہ پولیس ریکارڈ میں ریپ کے کیسز کی اصل تعداد درج نہیں ہوسکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں