ووہان کی وائرلوجسٹ ڈاکٹر شائی زینگلی نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ نیا کورونا وائرس ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرلوجی نے تیار کیا تھا۔

امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'میری لیبارٹری کبھی وائرس کے اثرات کو بڑھانے کے تجربات نہیں کرتی'۔

انہوں نے کہا 'آخر میں ایسے شواہد کی پیشکش کیسے کروں جب ایسے کوئی شواہد ہے ہی نہیں؟ میں نہیں جانتی کہ دنیا نے یہ نتیجہ کیسے نکالا اور معصوم سائنسدانوں کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ لیبارٹری میں وائرس کی طاقت بڑھانے اور اس کے پھیلاؤ کی تفصیلات چھپانے کے دعوے قیاسات ہیں جن کی بنیاد عدم اعتماد ہے۔

انہوں نے مزید کہا 'مجھے یقین ہے کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا، تو مجھے کسی قسم کا ڈر نہیں'۔

اس سے قبل مئی کے آخر میں ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نومبر 2019 میں ووہان انسٹیوٹ آف وائرلوجی کے متعدد محققین بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئے اور ان میں بیماری کی علامات کووڈ 19 جیسی تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے جنوری میں ایک فیکٹ شیٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ووہان انسٹیٹوٹ کے محققین 2019 کے موسم خزاں میں بیمار ہوئے، مگر اس وقت ہسپتال میں داخلے کا ذکر نہیں کیا گیا۔

چین کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کو بتایا گیا تھا کہ کووڈ جیسی علامات والا پہلا مریض ووہان میں 8 دسمبر 2019 کو سامنے آیا تھا۔

وال اسٹریٹ جرنل نے سب سے پہلے ان محققین کے ہسپتال میں داخلے کو رپورٹ کیا تھا۔

مگر امریکی انٹیلی جنس کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی یہ علم نہیں کہ ان سائنسدانوں کو کیا بیماری تھی اور کووڈ کے ماخذ کے حوالے سے تجزیے پر اس سے زیادہ اعتماد نہیں کہ وہ چین میں سامنے آیا۔

دوسری جانب ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرلوجی سے منسلک ووہان نیشنل بائیوسیفٹی لیب کے ڈائریکٹر نے 24 مئی کو اس رپورٹ کی سخت الفاظ میں تردید کی۔

یوان زیمنگ نے کہا 'میں نے اسے پڑھا ہے اور یہ مکمل جھوٹ ہے، یہ دعوے بے بنیاد ہیں، لیب کو ایسی کسی صورتحال کا علم نہیں اور میں بھی نہیں جانتا یہ معلومات کہاں سے سامنے آئی'۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے لیب سے وائرس لیک ہونے کے خیال کو تقویت دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین میں ہرجگہ جاکر معائنہ کرنے کے بعد ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ لیب سے وائرس نکلنے کے الزامات میں حقیقت نہیں۔

مگر امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے بعد مختلف ممالک کی جانب سے ووہان لیبارٹری میں وائرس کے حوالے تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں