پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ متوقع

اپ ڈیٹ 30 جون 2021
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت سے متعلق 3 مختلف آپشنز حکومت کے زیر غور ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت سے متعلق 3 مختلف آپشنز حکومت کے زیر غور ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں اضافے اور شرح ٹیکس میں کچھ تبدیلیوں کے باعث تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 3 مختلف آپشنز حکومت کے زیر غور ہیں۔

ایک آپشن یہ ہے کہ خاص طور پر موجودہ ٹیکس کی شرح اور تیل کی درآمدی قیمت کی بنیاد پر ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کی ایکس ڈپو قیمت میں 3 روپے جبکہ پیٹرول میں 6 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وفاقی حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

دوسرا آپشن 17 فیصد جی ایس ٹی اور قانون کے تحت جائز پیٹرولیم لیوی کی بنیاد پر ہے جس کے تحت ہائی اسپیڈ ڈیزل 34 روپے جبکہ پیٹرول کی قیمت میں 37 روپے کا اضافہ متوقع ہے۔

قانون کے تحت حکومت ایچ ایس ڈی اور پیٹرول پر لیوی 30 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل پر 12 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل پر 10 روپے فی لیٹر تک بڑھا سکتی ہے۔

عہدیداران کا کہنا تھا کہ موجودہ سال کے ریونیو کے نظرِ ثانی شدہ ہدف کی بنیاد پر حکومت تیسرے آپشن پر عمل کرسکتی ہے۔

جس کا مطلب ہے کہ بلند درآمدی قیمتوں کے اثرات آگے منتقل کرنے کے ساتھ ٹیکس کی شرح یعنی ایچ ایس ڈی اور پیٹرول کے کیس میں پیٹرولیم لیوی جبکہ ایل ڈی او اور مٹی کے تیل کی صورت میں پیٹرولیم لیوی اور جی ایس ٹی دونوں میں معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 11روپے 88 پیسے تک کی کمی کی سفارش

اس صورت میں تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7 سے 9 روپے تک کا اضافہ ہوگا، اس وقت ایچ ایس ڈی کی ایکس ڈپو قیمت 112.55 روپے فی لیٹر اور پیٹرول کی 110.69 روپے فی لیٹر ہے۔

حکومت مالی سال 2021 کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کے ذریعے ہدف سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرچکی ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران 3 کھرب 70 ارب روپے پیٹرولیم لیوی اکٹھا کیا گیا جبکہ سالانہ ہدف 4 کھرب 50 ارب روپے تھا۔

گزشتہ 2 سال کے عرصے میں حکومت جی ایس ٹی کے بجائے پیٹرولیم لیوی کی شرح پر زیادہ زور دیتی رہی ہے کیوں کہ پیٹرولیم لیوی کی مد میں اکٹھا ہونے والا فنڈ وفاق کے پاس رہتا ہے جبکہ جی ایس ٹی قابل تقسیم ٹیکس میں شامل ہوتا ہے جس کا 57 فیصد حصہ صوبوں کو جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں