گھوٹکی حادثہ: انکوائری میں پاکستان ریلوے کے 20 عہدیدار ذمہ دار قرار

اپ ڈیٹ 09 اگست 2021
پی آر بورڈ کے چیئرمین/ وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر حبیب الرحمٰن گیلانی نے ایف جی آئی آر کی رپورٹ کی تصدیق سے انکار کر دیا۔ - فائل فوٹو:اے پی
پی آر بورڈ کے چیئرمین/ وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر حبیب الرحمٰن گیلانی نے ایف جی آئی آر کی رپورٹ کی تصدیق سے انکار کر دیا۔ - فائل فوٹو:اے پی

لاہور: وفاقی حکومت کے انسپیکٹر آف ریلویز کی جانب سے کی گئی انکوائری میں کہا گیا ہے کہ جون میں ڈہرکی میں دو مسافر ٹرینوں کے درمیان تصادم، جس کے نتیجے میں 67 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، کی اصل وجہ ریل جوائنٹ کی ناقص دیکھ بھال تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت ریلوے کو وفاقی حکومت کے انسپیکٹر آف ریلویز کی جانب سے پیش کی گئی انکوائری میں بتایا گیا کہ 'انکوائری میں 20 سے زائد عہدیداروں کو گرفتار کیا گیا جن میں ریلوے سکھر ڈویژن کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ بھی شامل تھے جو 'ٹریک کی غیر مناسب دیکھ بھال' کے حوالے سے غفلت کے ذمہ دار تھے۔

ڈی ایس سکھر طارق لطیف نے ڈان کو بتایا کہ 'ہاں میں نے اس رپورٹ کے بارے میں سنا ہے جس نے مجھے ناقص نگرانی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں پہلے ہی جانتا تھا کہ ایف جی آئی آر مجھے قربانی کا بکرا بنائیں گے، اس کے باوجود کہ میں نے ہیڈ کوارٹر کو ان مسائل کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ کردیا تھا جو سکھر ڈویژن کے آپریشنل دائرہ کار میں کسی بھی بڑے حادثے کا باعث بن سکتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: ٹریک کی خستہ حالت حادثے کی وجہ بن سکتی ہے، ڈی ایس سکھر کا حادثے سے قبل اعلیٰ حکام کو خط

پی آر بورڈ کے چیئرمین/ وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر حبیب الرحمٰن گیلانی نے ایف جی آئی آر کی رپورٹ کی تصدیق سے انکار کر دیا۔

حبیب الرحمٰن نے کہا کہ 'مجھے ہفتے کی رات یہ رپورٹ موصول ہوئی تاہم اس کے اگلے روز چھٹی کی وجہ سے میں اسے پڑھ نہیں سکا، میں اس کو منظوری کرکے حتمی منظوری کے لیے وزیر ریلوے کو پیش کیے بغیر تصدیق نہیں کر سکتا'۔

حادثے کے فوراً بعد چند جونیئر عہدیداروں کی ابتدائی رپورٹ میں بھی ریل جوائنٹ کی ناقص اور نامناسب ویلڈنگ کی نشاندہی کی گئی تھی اس واقعے میں سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی چند بوگیاں پٹری سے اتر گئی تھیں۔

ضلع گھوٹکی کے ریتی اور ڈہرکی اسٹیشنز کے درمیان ٹرین 7 جون کو رات 3 بجکر 30 منٹ پر پٹری سے اتر گئی تھی جس سے آٹھ گاڑیاں متوازی پٹری پر چلائی گئی تھیں، چند منٹ بعد راولپنڈی سے سرسید ایکسپریس جو مخالف سمت سے آرہی تھی، پٹری سے اترنے والی گاڑیوں سے ٹکرا گئی تھی۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق، جسے ریلوے قوانین کے تحت مشترکہ سرٹیفکیٹ کہا جاتا ہے، ٹیم کے ایک رکن کے علاوہ تمام نے مذکورہ وجہ سے اتفاق کیا جبکہ سائٹ کے معائنے کے بعد صورتحال کی وضاحت کی۔

یہ بھی پڑھیں: اعظم سواتی نے ٹرین حادثے کی ذمہ داری قبول کرلی

اس نے کہا کہ سائٹ کا دورہ کرنے والی ٹیم کو 'ایک ویلڈڈ ریل جوائنٹ تازہ ٹوٹا ہوا ملا تھا اور انہوں نے پٹری سے اترے ہوئے کوچز کو اس سے 76 فِٹ دور پایا اور تجویز دی کہ پٹری کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کی فارنزک تجزیے کے بعد ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔

ڈی ایس سکھر نے اس واقعے کے فورا بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ سکھر ڈویژن میں اپ اور ڈاؤن دونوں ٹریک پر تقریبا 6 ہزار جوڑ ہیں اور جس مقام پر یہ سانحہ پیش آیا وہ ویلڈڈ جوڑوں میں سے ایک تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس صرف ایک ویلڈنگ مشین تھی اور وہ بھی ناقص معیار کی تھی۔

انہوں نے تجویز دی تھی کہ پورے ٹریک کو فوری بنیادوں پر بحالی کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں