کابل: امریکی دفاعی حکام نے امریکی انٹیلی جنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان آئندہ 30 روز میں افغانستان کے دارالحکومت کو تنہا کر سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر آئندہ 90 روز میں اسے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عہدیدار نے بتایا کہ کابل کتنی دیر تک کھڑا رہ سکتا ہے اس کا اندازہ امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ملک بھر میں طالبان کی تیزی سے جاری پیش رفت سے ثابت ہوسکتا ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ تاہم یہ پہلے سے طے شدہ نتیجہ نہیں ہے۔

یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ اسلام پسند اب افغانستان کے 65 فیصد حصے پر قابض ہیں اور انہوں نے 11 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور مزید پر قبضے کی دھمکی دی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ

شہر کے ایک مغربی سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ کابل کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر شہریوں کے شہر میں داخل ہونے اور تشدد سے کہیں اور فرار ہونے کے باعث بہت زیادہ رش ہے اور یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا طالبان بھی اس سے گزر رہے ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈر یہ ہے کہ خود کش حملہ آور سفارتی حلقوں میں داخل ہو جائیں گے تاکہ خوفزدہ کرسکیں، حملہ کریں اور یقینی بنائیں کہ ہر کوئی جلد سے جلد وہاں سے نکل جائے'۔

بدھ کو شمال مشرقی صوبے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد کو کھودینا افغان حکومت کے لیے تازہ جھٹکا تھا جو طالبان کے حملوں کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

یہ اس وقت پیش آیا جب افغان صدر اشرف غنی شمال کے سب سے بڑے شہر مزار شریف کے دفاع کے لیے پرانے جنگجوؤں کو اکٹھا کر رہے تھے کیونکہ طالبان جنگجو اس کے قریب تر آتے جارہے ہیں۔

بدخشان سے صوبائی کونسل کے رکن جواد مجددی نے کہا کہ طالبان نے حملہ کرنے سے قبل فیض آباد کا محاصرہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'فیض آباد کے سقوط کے ساتھ پورا شمال مشرقی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں آگیا ہے'۔

واضح رہے کہ بدخشاں کی سرحدیں تاجکستان، پاکستان اور چین سے ملتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان نے مزید دو صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرلیا

طالبان امریکی حمایت یافتہ حکومت کو شکست دینے اور اسلامی قوانین کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔

ان کی پیش قدمی کی رفتار نے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو چونکا دیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اپنے وطن کے لیے لڑیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنے انخلا کے فیصلے پر افسوس نہیں ہے، امریکا نے 20 سالوں میں 10 کھرب ڈالر سے زائد خرچ کیے اور ہزاروں فوجیوں کو کھو دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا، افغان فورسز کو اہم فضائی مدد، خوراک، سامان اور تنخواہیں فراہم کر رہا ہے۔

امریکا اپنی افواج کا انخلا رواں مہینے میں طالبان کے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے وعدوں کے بدلے میں کرے گا۔

طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے وقت حملہ نہیں کریں گے تاہم حکومت کے ساتھ جنگ بندی پر وہ راضی نہیں ہوئے۔

طالبان کی طرف سے حکومتی فریق کے ساتھ امن کی بات کرنے کا عزم ناکام ہو گیا ہے کیونکہ وہ فوجی فتح کو دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کی پیش قدمی جاری، افغانستان کے 65 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا

ایک سینئر طالبان رہنما نے بتایا کہ تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے منگل کے روز دوحہ میں امریکی خصوصی سفیر برائے افغانستان زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی۔

تاہم ملاقات کی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ متوقع ملاقاتوں میں سے ایک ٹرائکا پلس کا اجلاس بھی ہو گا جو جس کی قیادت امریکا، چین اور روس کر رہے ہیں۔

طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان وفد بھی اس میں حصہ لے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں