طالبان کا افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ

اپ ڈیٹ 10 اگست 2021
طالبان کی جانب سے پیش قدمی جاری ہے—فائل/فوٹو: رائٹرز
طالبان کی جانب سے پیش قدمی جاری ہے—فائل/فوٹو: رائٹرز

طالبان نے گزشتہ ہفتے شمالی صوبوں میں حکومتی فورسز کے خلاف تیزی سے پیش قدمی کرنے کے بعد اب چھٹےصوبائی دارالحکومت پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سمنگان کے ڈپٹی گورنر صفت اللہ سمنگانی نے کہا کہ طالبان بغیر کسی لڑائی کے صوبائی دارالحکومت ایبک میں داخل ہوئے جہاں صوبے کے مضافات میں ایک ہفتےسے جاری جھڑپوں کے بعد برادری کے عمائدین نے مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے سرکاری عہدیداروں سے درخواست کی۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان نے مزید دو صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرلیا

صفت اللہ سمنگانی نے کہا کہ گورنر نے درخواست منظور کرتے ہوئے تمام فورسز کو شہر سے ہٹادیا اور شہر میں اب طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔

طالبان کے مقامی ترجمان نے بھی شہر میں قبضے کی تصدیق کردی۔

رپورٹس کے مطابق اس سے قبل طالبان نے شمال میں 5 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کیا، جس کے بعد خطے میں حکومت کے کنٹرول کھونے کا خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

طالبان نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا تھا۔

طالبان نے تازہ بیان میں کہا کہ وہ مزار شریف کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں جو شمال میں سب سے بڑا شہر ہے اور خطے میں حکومت کے تسلط کی علامت ہے جبکہ طالبان نے اس کے مغرب میں شبرغان اور مشرق میں قندوز اور تالقان کو زیرنگیں کر چکے ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان شہر میں داخل ہوچکے ہیں لیکن سرکاری عہدیدار اور مقامی افراد نے فون پر کہا کہ طالبان بڑھا چڑھا کر بات کر رہے ہیں تاہم اطراف کے اضلاع میں جھڑپوں کی تصدیق کی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا چمن سے ملحقہ افغان سرحد پر قبضہ کرنے کا دعویٰ

صوبہ بلخ کی پولیس فورس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘دشمن رائے عامہ کو توڑ مروڑنا اور اپنے پروپیگنڈے سے عام آبادی میں بے چینی پیدا کرنا چاہتا ہے’۔

افغان صوبے بلخ کے دارالحکومت مزار شریف کے مضبوط رہنما عطا محمد نے آخر تک لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘میرے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت’ ہوگی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘میں بے بسی کی موت کے بجائے عزت سے مرنے کو ترجیح دوں گا’۔

مزار شریف کی معاشی اور تاریخی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہاں طالبان کے قبضے کی صورت میں افغان حکومت کا شمال میں تسلط کے خاتمے کا اشارہ ہوگا اور حکومت کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات اٹھیں گے۔

افغانستان کے شمال میں دوسرے بڑے شہر قندوز پر طالبان نے گزشتہ روز قبضہ کرلیا تھا جہاں شہریوں کا کہنا تھا کہ جنگجو ہر جگہ پر موجود ہیں، سرکاری دفاتر اور اداروں پر قابض ہوگئے ہیں۔

ایک مقامی، رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کی صورت حال اچھی نہیں ہے اور ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خوف ناک مووی کی طرح ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے 85 فیصد حصے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ

ایک اور شہری عبدالقدوس نے کہا کہ خوف میں اضافہ ہورہا ہے کہ قندوز میں کھانے اور پانی کی قلت ہوگی۔

جنوب میں جھڑپیں

طالبان نے شمال میں تیزی سے پیش قدمی کی ہے لیکن جنوب میں بھی شدید جھڑپیں جاری ہیں جہاں افغان فورسز کو طالبان کے ساتھ لڑائی کے دوران شہروں میں گلیوں تک محدود کردیا گیا ہے۔

جنگجووں کی جانب سے قندھار اور لشکر گاہ کے حصول کی کوششیں ہفتوں سے جاری ہیں جہاں دونوں صوبوں میں پشتون آبادی کی اکثریت ہے اور طالبان کی طاقت قرار دیا جاتا ہے۔

افغان فوج کے 215 کور کے کمانڈر سمیع سادار نے لشکر گاہ سے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ‘ہم گھروں، سڑکوں اور عمارتوں کو واگزار کر رہے ہیں جہاں طالبان قابض ہیں’۔

وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران طالبان کے سیکڑوں جنگجووں کو مارا گیا ہے۔

خیال رہے کہ دونوں جانب سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے جبکہ اس کی تصدیق بھی ناممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکام اور طالبان عہدیداروں کی ایران میں ملاقات

فریقین کی جانب سے یہ دعوے شمال میں قندوز، سرپل اور تالقان میں چند گھنٹوں میں قبضے کے بعد سامنے آئے ہیں۔

افغانستان کے شمالی خطے کو طالبان کا سخت مخالف تصور کیا جاتا ہے جہاں انہیں 1990 کی دہائی میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

شمالی خطے کو کئی انتہاپسندوں کا گھر قرار دیا جاتا ہے اور ملک کی مسلح افواج کی تربیت کے لیے زرخیز علاقہ ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی ہے جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیرملکی افواج کے انخلا کا اعلان کیا گیا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن نے 11 ستمبر کے حملوں کے 20 برس کی تکمیل تک افغانستان سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کا اعلان کیا تھا جو ممکنہ طور پر رواں ماہ کے آخر تک مکمل ہوجائے گا۔

افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا تاہم 20 سال تک ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد واپس جانے کا اعلان کردیا جبکہ ان کے اعلان کے ساتھ طالبان نے تیزی سے پیش قدمی شروع کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں