درمیانی عمر میں توند نکلنے کی اصل وجہ سائنسدانوں نے جان لی

15 اگست 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

درمیانی عمر میں توند نکل آنا درحقیقت آپ کی اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس کا میٹابولزم سے کچھ لینا دینا نہیں۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر میں پیٹ کا باہر نکل آنے کی ممکنہ وجہ طرز زندگی کے عناصر جیسے ورزش اور غذا ہوتے ہیں۔

اس تحقیق میں انسانوں کی پوری زندگی میں میٹابولزم ریٹ کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں مختلف جسمانی جسامت اور وزن کو مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہوا کہ ایک نومولود بچہ بھی اتنی ہی توانائی استعمال کرتا ہے جتنا بالغ افراد۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی نومولود بچے کے خلیات کے اندر کچھ ایسا ہوتا ہے جو ان کو بہت زیادہ متحرک کردیتا ہے، جس کے بارے میں ابھی ہم جان نہیں سکے ہیں۔

میٹابولزم کی یہ حیرت انگیز رفتار اس وقت تک رہتی ہے جب تک بچہ 2 سال کا نہیں ہوجاتا، مگر پھر ہر سال اس کی رفتار میں 3 فیصد کمی آتی ہے۔

یہ بتدریج کمی کا سلسلہ بلوغت تک جاری رہتا ہے اور 20 سال کے قریب مستحکم ہوجاتا ہے۔

اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ میٹابولزم کی رفتار میں اضافہ لڑکپن کے بعد ہوتا ہے مگر نئے نتائج نے سائنسدانوں کو حیران کردیا۔

مگر تحقیق میں صرف یہی غیرمتوقع نتیجہ سامنے نہیں آیا بلکہ یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 20 سے 60 سال کی عمر تک میٹابولزم افعال ایک شرح میں مستحکم رہتے ہیں۔

اکثر افراد کا خیال ہے کہ 30 سال کے بعد میٹابولزم کی غذائی کیلوریز جلانے کی رفتار میں کمی آتی ہے مگر تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس رفتار میں کمی صرف اسی وقت آتی ہے جب کسی کی عمر 60 سال ہوجاتی ہے۔

اس تحقیق میں 29 ممالک کے 6 ہزار 600 سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں ایک ہفتے سے 95 سال کے درمیان تھیں۔

اس سے محققین کو پیدائش کے بعد سے بڑھاپے تک کسی فرد کی میٹابولک اسپیڈ کی جانچ پڑتال کا موقع مل سکا اور انہوں نے توانائی خرچ کرنے والے تمام جسمانی افعال جیسے سانس لینا، کھانا ہضم کرنا، ورزش اور چہل قمی وغیرہ کا جائزہ لیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ میٹابولزم کے بارے میں تحقیق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پوری زندگی خلیات کے افعال میں تبدیلی آتی رہتی ہے مگر یہ اس طرح نہیں ہوتا جیسا ہم ابھی تک سوچ رہے تھے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں