افغان ٹی وی چینلز پر خواتین اینکرز کی واپسی

اپ ڈیٹ 17 اگست 2021
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مختلف خدشات کے پیشِ نظر اکثر ٹی وی چینلز نے خواتین اینکرز کو ٹی وی اسکرینز سے ہٹادیا تھا—فوٹو: ٹوئٹر
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مختلف خدشات کے پیشِ نظر اکثر ٹی وی چینلز نے خواتین اینکرز کو ٹی وی اسکرینز سے ہٹادیا تھا—فوٹو: ٹوئٹر

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مختلف خدشات کے پیشِ نظر افغانستان کے اکثر ٹی وی چینلز نے خواتین اینکرز کو ٹی وی اسکرینز سے ہٹادیا تھا تاہم 2 روز بعد خواتین اینکرز کی ٹی وی اسکرین پر واپسی کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔

15 اگست کو کابل میں داخلے اور ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد گزشتہ روز طالبان نے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر نشریات کا آغاز کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان کے کنٹرول سنبھالتے ہی خاتون رپورٹر نے افغانستان میں برقع پہن لیا

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر میں سرکاری چینل پر ایک مرد کو خبریں پڑھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

—فوٹو: ٹوئٹر
—فوٹو: ٹوئٹر

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ صحافیوں، بالخصوص خواتین کو فرائض کی انجام دہی میں شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں اور شاید انہیں کام سے روک دیا جائے گا۔

تاہم طالبان کے قبضے کے 2 روز بعد 17 اگست کو افغان نشریاتی ادارے 'طلوع نیوز' کے سینئر عہدیدار کی جانب سے خاتون اینکر کی تصویر شیئر کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی وی اسکرینز پر طالبان کے دور میں خواتین واپس آگئی ہیں۔

طلوع نیوز کے ہیڈ آف نیوز مراکا پوپل نے آج صبح خاتون اینکر کی تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'ہم نے آج خواتین اینکرز کے ساتھ اپنی نشریات دوبارہ شروع کردیں'۔

بعدازاں انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کچھ تصاویر شیئر کیں جس میں طلوع نیوز کی خاتون اینکر کو طالبان رہنما کا انٹرویو لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق تصویر میں موجود نیوز اینکر بہشتہ ارغند ہیں، جو طالبان کی میڈیا ٹیم کے رکن مولوی عبدالحق حماد سے کابل شہر کی صورتِ حال پر بات چیت کررہی ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق طالبان کو خواتین کے ٹیلی ویژن اسکرین پر آنے سے بظاہر اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

افغانستان میں خواتین نہ صرف اسٹوڈیو سے اینکرز کے فرائض انجام دے رہی ہیں بلکہ وہ کابل کی سڑکوں سے بھی رپورٹنگ کررہی ہیں۔

مراکا پوپل نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ ہماری خواتین صحافی حسیبہ اتکپل اور زہرہ راحمی، کابل شہر سے براہ راست رپورٹنگ کررہی ہیں۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد خواتین صحافیوں کے لیے میڈیا کی آزادی سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی ہے۔

اس حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کیا جارہا تھا جبکہ 15 اگست کے بعد سی این این کی رپورٹر کلاریسا وارد برقعے میں رپورٹنگ کرتی ہوئی نظر آئی تھیں جس نے سب کو حیران کردیا تھا۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر وائس آف امریکا کی بیورو چیف برائے افغانستان و پاکستان عائشہ تنظیم کی ایک ویڈیو بھی گردش کررہی ہیں جس میں وہ گاڑی میں برقع پہنے سفر کررہی ہیں اور کابل کی صورتحال بیان کرتی نظر آرہی ہیں۔

مذکورہ تصاویر و ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد افغانستان پر طالبان کے قبضے اور متوقع حکومت کے دوران بھی آزادی اظہار رائے کی امید کی جارہی ہے۔

مشرف زیدی نے لکھا کہ 'یہ ایک طاقتور ویڈیو ہے، شکریہ طلوع نیوز'۔

سمیع یوسفزئی نے لکھا کہ 'یہ بڑی خبر ہے کہ طالبان کو ٹی وی اسکرین پر خاتون کی موجودگی بری نہیں لگی'۔

وجاہت کاظمی نے لکھا کہ 'افغانستان سے اچھی رپورٹس آرہی ہیں، صورتحال پرسکون ہے اور خواتین صحافیوں کو کام کی اجازت دی جارہی ہے، میں اُمید کرتا ہے کہ طالبان کے نئے دورِ حکومت میں ملک میں امن قائم ہوگا۔

سعد محسینی نے لکھا کہ 'طلوع نیوز اور طالبان دوبارہ تاریخ رقم کررہے ہیں، عبدالحق حماد طالبان کے سینئر نمائندے نے آج صبح خاتون اینکر بہشتہ سے گفتگو کی، 2 دہائیاں قبل جب طالبان اقتدار میں تھے اس وقت یہ ناقابلِ تصور تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں