انخلا کے دوران سیکڑوں افغان شہریوں کو چھوڑ دینے پر برطانوی حکومت تنقید کی زد میں

30 اگست 2021
برطانیہ  نے دو ہفتوں کے دوران فضائی راستے سے 15 ہزار سے زائد افراد کو افغانستان سے نکالا—فائل فوٹو: رائٹرز
برطانیہ نے دو ہفتوں کے دوران فضائی راستے سے 15 ہزار سے زائد افراد کو افغانستان سے نکالا—فائل فوٹو: رائٹرز

منتقلی کے اہل سیکڑوں افراد کو چھوڑ کر افغانستان سے جلد بازی میں انخلا مکمل کرنے پر برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے دو ہفتوں کے دوران فضائی راستے سے 15 ہزار سے زائد افراد کو افغانستان سے نکالا جس پر وزیر اعظم بورس جانسن کو سراہتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے اپنی زندگی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا'۔

اتحادی ملک امریکا کے 20 سالہ موجودگی ختم کرنے کے فیصلے نے برطانیہ کو انخلا پر مجبور کیا اور فوجی دستے واپس جنوبی انگلینڈ میں واقع برائز نورٹن ائیر بیس پہنچ گئے۔

بورس جانسن نے 'پریشان کن حالات' میں انخلا کی کوششوں کی تعریف کی اور فوج کو یقین دہانی کرائی کہ طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بھی دہائیوں کی تعیناتیاں 'ضائع نہیں گئیں'۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے شہریوں، سفارتی عملے کے انخلا کیلئے برطانیہ کا فوجی دستے بھیجنے کا اعلان

تاہم موجودہ اور سابقہ عہدیداران حکومت کی ناکامی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ مزید افغان شہریوں کو نکالا جاسکتا تھا۔

براڈ شیٹ کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے برطانوی اخبار 'دی آبزرور' نے مخبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ اور فلاحی اداروں کی جانب سے وزارت خارجہ کو بھیجی گئیں ہزاروں ای میلز میں طالبان کی جانب سے خطرے کے شکار افغانوں کا ذکر تھا، جنہیں کھولا بھی نہیں گیا۔

وزیر خارجہ ڈومینک راب کو پہلے ہی طالبان کے قبضے کے وقت تعطیلات سے فوری طور پر واپس نہ آنے پر سخت تنقید کا سامنا تھا۔

آبزرور نے مزید کہا کہ اس نے شواہد دیکھے ہیں کہ وزارت خارجہ کی جانب سے اس قسم کی درخواستوں کی وصولی کے لیے بنائے گئے سرکاری ای میل اکاؤنٹ پر گزشتہ ہفتے 5 ہزار ای میلز ایسی تھیں جو کھولی نہیں گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: مسئلہ افغانستان: بورس جانسن کو برطانوی ساکھ متاثر کرنے کے الزامات کا سامنا

اخبار کا کہنا تھا کہ اس میں وزرا اور اپوزیشن لیبر پارٹی کے رہنما کئیر اسٹارمر کے پیغامات بھی شامل ہیں۔

مخبر کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'وہ ممکنہ طور پر یہ نہیں جانتے کہ (پیچھے کتنے لوگ رہ گئے) کیونکہ انہوں نے ای میلز تک نہیں پڑھیں'۔

اس پر برطانوی دفتر خارجہ نے جواب دیا کہ 'کالز اور ایمیلز کا جواب دینے کے لیے' ان کی کرائسس ٹیم ہفتے کے ساتوں دن اور 24 گھنٹے کام کر رہی تھی۔

عہدیداران نے ان اہل افغان شہریوں کے بارے میں مختلف اعداد و شمار بتائے جو ہفتے کے روز انخلا کے لیے آخری پرواز میں سوار نہیں ہوسکے جبکہ برطانیہ کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل سرنک کارٹر نے اسے کئی سیکڑوں میں بتایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انخلا میں توسیع کی تو امریکا کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، طالبان

براڈ شیٹ کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اخبار 'سنڈے ٹائمز' نے وزیر کا نام لیے بغیر حوالہ دیا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ ہم مزید 800 سے ایک ہزار افراد کو نکال سکتے تھے'۔

وزیر نے ڈومینک راب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تیسری دنیا کے ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جہاں سے افغان برطانیہ میں داخل ہوسکتے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں