نیپرا کا اوور بلنگ کرنے پر کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا حکم

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2021
یہ نوٹ کیا گیا کہ بعض کیسز میں اس کی ریڈنگ مہینے کے 30 یا 31 دنوں کے بجائے 35 سے 52 دن کے درمیان ہوتی ہے۔ - فائل فوٹو:رائٹرز
یہ نوٹ کیا گیا کہ بعض کیسز میں اس کی ریڈنگ مہینے کے 30 یا 31 دنوں کے بجائے 35 سے 52 دن کے درمیان ہوتی ہے۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: جہاں تقریباً تمام عوامی اور پرائیویٹ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں 30/31 دن سے زائد کے ماہانہ بلنگ سائیکل کے ذریعے صارفین سے زائد چارج کرنے کی تصدیق ہوگئی ہے وہیں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوور بلنگ پر عوامی سماعت کی صدارت کرتے ہوئے نیپرا کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے کے الیکٹرک سمیت تمام ڈسکوز کو ہدایت کی کہ وہ 30 یا 31 روز سے زائد کی میٹر ریڈنگ کرنے والے تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں جس کے نتیجے میں صارفین کو اضافی چارجز ادا کرنے پڑے ہوں گے۔

جہاں اوور بلنگ کے ایام ہر کمپنی کے مختلف ہوتے ہیں وہیں یہ انکشاف کیا گیا کہ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) نے رحیم یار خان میں صارفین سے ماہانہ بلوں میں 52 دن کے بل وصول کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: موسم سرما میں گیس کے بجائے بجلی کا استعمال بڑھانے کیلئے ٹیرف کم کرنے پر غور

یہ نوٹ کیا گیا کہ بعض کیسز میں اس کی ریڈنگ مہینے کے 30 یا 31 دنوں کے بجائے 35 سے 52 دن کے درمیان ہوتی ہے۔

نیپرا کے چیئرمین نے مشاہدہ کیا کہ اوور بلنگ صارفین کو سلیب کے فائدے سے محروم کرتی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'یہ فائدہ صارفین کو کیسے واپس کیا جائے گا؟'

میپکو کے سی ای او نے جواب دیا کہ وہ ان کیسز کی تحقیقات کر رہے ہیں تاہم تسلیم کیا کہ کورونا وائرس اور عید کی تعطیلات کی وجہ سے مئی میں 30 سے 37 دن کی اوور بلنگ کی گئی۔

لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کے سی ای او نے کہا کہ ایک ماہ سے زیادہ کی ریڈنگ کو اوور بلنگ کہا جا سکتا ہے جو کہ جولائی میں عاشورہ اور عام تعطیلات کی وجہ سے پیش آئیں۔

انہوں نے کہا کہ عملے کی عام تعطیلات کو ہٹا کر انہیں ایک ماہ میں میٹر ریڈنگ اور بلنگ کے لیے صرف 20 روز ملے تھے۔

نیپرا کے چیئرمین اور وائس چیئرمین رفیق شیخ متعدد کمپنیوں کی جانب سے اسی طرح کی وضاحتوں پر حیران ہوئے اور کہا کہ اس سے صارفین سلیب کے فوائد سے محروم ہوئے اور صرف اوور ریڈنگ کی وجہ سے ان سے زیادہ نرخ وصول کیے گئے ہیں۔

انہوں نے تعطیلات، کورونا اور عاشورہ کی وضاحتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر چھٹیوں کی وجہ سے مسلح افواج کو کبھی سرحدوں سے واپس نہیں بلایا جاتا تو دیگر ضروری خدمات کا بھی کوئی جواز نہیں ہے کہ اس طرح کی کمزور بنیادوں پر اپنی ذمہ داریاں ترک کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریگولیٹر اس طرح کے طریقوں کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر ڈسکو اس مسئلے پر تفصیلی رپورٹس کے ساتھ ساتھ قابل عمل حل پیش کرے کہ کس طرح صارفین کو معاوضہ دیا جائے جن میں سے اکثریت نے نوٹس تک نہیں لیا کہ ان کے ساتھ سرکاری اداروں نے اصل میں کیا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کے نرخوں میں 2 برس میں فی یونٹ 5.36 روپے کا اضافہ متوقع

اس دوران انہوں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ کیا اوور بلنگ جان بوجھ کر کی گئی تھی یا چند تکنیکی مسائل کی وجہ سے ایسا ہوا جس کے بارے میں کسی بھی صورت میں ریگولیٹر کو اطلاع دی جانی چاہیے تھی اگر مسئلہ تکنیکی تھا۔

کے الیکٹرک کے چیف فنانشل آفیسر عامر غازیانی نے بھی تصدیق کی ہے کہ محرم کے جلوسوں کی وجہ سے چند علاقوں میں جانا مشکل تھا ورنہ کے الیکٹرک نے جان بوجھ کر صارفین کو اضافی بل نہیں بھیجا۔

انہوں نے کہا کہ کے ای کے چند صارفین کو 34 دن کا بل دیا گیا تاہم وضاحت کی کہ کمپنی نے اگلے مہینے میں اس کی ایڈجسٹمنٹ کردی تھی۔

نیپرا کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تفصیلی فیصلہ مناسب وقت پر دیں گے۔

ریگولیٹر نے اگست میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے سابقہ واپڈا ڈسکوز کے لیے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (ایف سی اے) کے تحت بجلی کے نرخ میں 2.07 روپے فی یونٹ اضافے پر بھی سماعت کی۔

سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے کہا کہ ڈسکوز نے اگست میں صارفین کے لیے فیول فی یونٹ 4.73 روپے فی یونٹ چارج کیا تھا جبکہ فیول کی اصل قیمت 6.805 روپے فی یونٹ تھی اس لیے فیول کی اضافی قیمت 2.07 روپے فی یونٹ تھی اس لیے آنے والے مہینے میں صارفین سے یہ لاگت وصول کی جائے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آر ایل این جی کے اخراجات ریفرنس کے اخراجات سے 76 فیصد زیادہ ہیں جبکہ فرنس آئل پر مبنی بجلی کی لاگت 57 فیصد زیادہ ہے۔

نیپرا نے سوال کیا کہ اگست میں فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار پر 10 ارب روپے اضافی کیوں خرچ کیے گئے؟

علاوہ ازیں بتایا گیا کہ پاور پلانٹس کو پاور پلانٹس کی مانگ سے 300 ایم ایم سی ایف ڈی کم گیس ملی۔

ریگولیٹر نے کہا کہ اعداد و شمار کی مزید تصدیق کی بنیاد پر ٹیرف میں 1.95 روپے سے 2 روپے فی یونٹ اضافے کی اجازت دی جائے گی جس سے 30 سے 35 ارب روپے کا اضافی ریونیو اثر پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں