سندھ کابینہ نے گنے کی قیمت 240 روپے فی من مقرر کردی

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2021
رواں سال گنے کی کٹائی 15 نومبر سے شروع ہوگی— فوٹو: سی ایم ہاؤس ٹوئٹر
رواں سال گنے کی کٹائی 15 نومبر سے شروع ہوگی— فوٹو: سی ایم ہاؤس ٹوئٹر

سندھ کابینہ نے موجودہ سیزن کے لیے گنے کی قیمت 240 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کر دی، اجلاس میں کابینہ نے ایک ہزار 500 اساتذہ کے تقرر کے ساتھ کچرے سے بجلی بنانے کی پالیسی کی منظوری بھی دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں متعلقہ وزرا، وزیر اعلیٰ کے مشیران، معاونین خصوصی، چیف سیکریٹری ممتاز شاہ اور دیگر عہدیدران و افسران نے شرکت کی۔

وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے زراعت منظور وسان نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ سال 19-2018 میں گنے کی قیمت 182 روپے فی من تھی، 20-2019 میں 192 روپے فی 40 کلو گرام اور 21-2020 کے سیزن کے لیے یہ قیمت 202 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: گنے کی قیمت پر شوگر ملز، کسانوں اور حکومت کے درمیان تعطل برقرار

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال تیسرے سیزن میں گنے کی کرشنگ کا آغاز 30 نومبر کو ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت شوگر ملرز کو کرشنگ سیزن کے اختتام پر کوالٹی پریمیم کی ادائیگی کرنی پڑتی تھی۔

اجلاس میں کابینہ نے گنے کے کسانوں اور شوگر ملرز سے مشاورت کرنے سمیت دیگر پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے گنے کی کرشنگ کے سیزن کا آغاز 15 نومبر سے کرنے کی منظوری دی۔

علاوہ ازیں اجلاس میں گنے کی خریداری کی قیمت فی من 240 روپے مقرر کی گئی، جبکہ کابینہ کی جانب سے فی من پر 0.50 روپے پریمیم کی منظوری بھی دی گئی۔

گنے کی خریدارای کی قیمت میں اضافہ زراعت کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر ملرز نے گنے کی قلت پر ملوں کی بندش سے خبردار کردیا

دوسری جانب منظور وسان نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فی من گندم کی قیمت 19-2018، 20-2019 اور 21-2020 میں بالترتیب ایک ہزار 300 روپے، ایک ہزار 400 روپے اور ایک ہزار 800 روپے مقرر کی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس سندھ حکومت کی جانب سے کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے گندم کی فی من قیمت 2 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔

وزیر اعلیٰ نے صوبائی وزیر کو ہدایت کی کہ اس معاملے سے متعلق دیگر صوبوں سے مشاورت کرتے ہوئے کابینہ میں تجویز پیش کریں۔

سندھ کابینہ کے اجلاس میں اساتذہ کے تقرر کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، اس دوران صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے آگاہ کیا کہ محکمہ تعلیم کالج کو 2 مسائل کا سامنا تھا جس میں اساتذہ کی عدم موجودگی اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں اساتذہ کا فقدان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گنے کی قیمت سے متعلق کیس: ’لگتا ہے سندھ حکومت مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتی‘

انہوں نے 17 اور 18 گریڈ کے لیکچرار اور ٹیچرز کی آسامیوں سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے آگاہ کیا۔

کابینہ نے تفصیلی گفتگو کے بعد کالج ٹیچنگ انٹرنز پروگرام 2021 کے تحت ایک ہزار 500 کالجز، ضلع کے لیے مخصوص، مضمون کے ناقابل منتقلی ماہرین اور دیگر اساتذہ کی سات ماہ کے لیے 60 ہزار روپے ماہانہ وظیفے کے ساتھ بھرتی کی منظوری دی۔

کچرے سے بجلی بنانے کی پالیسی

صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ نے کابینہ کے اجلاس میں’کچرے سے بجلی‘ بنانے کا مسودہ پیش کیا جس میں نشاندہی کی گئی کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 10 سے 11 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جبکہ حیدر آباد میں ایک ہزار سے ایک ہزار ایک سو ٹن، سکھر میں 400 ٹن اور لاڑکانہ میں 320 ٹن روزانہ کچرا نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچرے میں بجلی اور آر ڈی ایف (ریفیوز ڈرائیوڈ فیول) کی نوعیت کی توانائی بنانے کی طاقت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پالیسی پہلے مرحلے میں کراچی جبکہ دوسرے مرحلے میں صوبے بھر میں نافذ کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں