سندھ ہائی کورٹ میں گنے کی قیمتوں کا تعین کرنے کے معاملے پر عدالت نے کہا ہے کہ حکومت نے شوگر ملز مالکان کو خوش کیا اور کاشتکاروں کو ہمیشہ کی طرح چھوڑ دیا، لگتا ہے سندھ حکومت مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتی۔

سندھ ہائی کورٹ میں گنے کی قیمت کا تعین کرنے کے معاملے پر کاشتکاروں اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران جسٹس عقیل احمد عباسی نے مسئلہ حل نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور چیف سیکریٹری اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو فوری طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: بلاول چورنگی پر گنے کے کاشتکاروں پر پولیس کا بدترین لاٹھی چارج

جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت نے جان بوجھ کر یہ مسئلہ پیدا کیا، حکومت سے کام ہوتے نہیں پھر عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کام نہیں کر رہی، جوڈیشل ریفارم کی باتیں کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں، متعلقہ سیکریٹری نہیں، اب چیف سیکریٹری پیش ہوں اور وضاحت پیش کریں۔

اس موقع پر درخواست گزار مرید علی شاہ نے دلائل دیئے کہ حکومتی اقدام سے نقصان ملز مالکان کا نہیں کاشتکاروں کا ہورہا ہے، سندھ ہائی کورٹ نے گنے کی قیمت مقرر کی تاہم ملز مالکان نے ملز بند کردیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ شوگر ملز بند کرنا عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے، پاسما کے عہدیداروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

سماعت کے دوران شوگر ملز مالکان کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ گزشتہ برس شوگر کی قیمت 70 سے زیادہ تھی، ہم مارکیٹ مکینزم کی وجہ سے مجبور ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 182 روپے کا گنا نہیں خرید سکتے، اس قیمت سے شوگر ملز کو روزانہ 70 سے 80 لاکھ روپے کا نقصان ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر، سیکریٹری ثقافت، سیکریٹری زراعت سب حکومت کے پاس ہے مگر شوگر ملز کو فائدہ نہیں ہورہا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ یہاں گنے کی قیمت مقرر کی جاتی ہے شوگر کی نہیں، حکومت چینی کی قیمت بھی مقرر کرے۔

سماعت کے دوران جسٹس عقیل احمد نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ آپ سرکار کا راستہ استعمال کریں، نوٹیفکیشن چیلنج کیوں کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ جب نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے تو کن چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، کیا سپریم کورٹ کا نوٹیفکیشن سے متعلق ایسا فیصلہ موجود ہے؟

جسٹس عقیل نے کہا کہ ابھی تک تو آپ کو کوئی پابندی نظر نہیں آتی آپ اتنے کم پیسے میں گنا کیوں خریدنا چاہتے ہیں، اس کی وجہ عدالت کو بتائی جائے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ شوگر ملز اگر نوٹیفیکیشن کے متعلق گنا خریدے گی تو ساری شوگر ملز بند ہوجائیں گی، دنیا میں چینی کی پیداور زیادہ ہوگئی ہے جبکہ پہلے وفاقی حکومت چینی خرید لتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔

شوگر ملز مالکان کے وکیل نے کہا کہ یہ معاملہ شوگر کین بورڈ کو دوبارہ قیمت کے تعین کے لیے بھیجا جائے۔

سماعت کے دوران جسٹس عقیل احمد اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ بھی ہوا۔

جسٹس عقیل احمد نے کہا کہ فرض کیجیے آج آپ معاملہ کابینہ کو دے دیتے ہیں تو کابینہ آج فیصلہ کردے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا نوٹیفکیشن کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوا ہے معاملہ کابینہ کو دوبارہ بھیجا جائے، انہوں نے کہا کہ ہم کام کر رہے ہیں اور وزیراعلی کو سمری بھیجی ہے گنے کے متعلق معاملہ دیکھ رہے ہیں۔

اس موقع پر درخواست گزار مرید علی شاہ نے کہا کہ گنا کی قیمت پر عمل درآمد نہ ہوا تو کاشتکاروں کو نقصان ہوگا، شوگر ملز کو گنا 182 میں خریدنا ضروری ہے، ہمیں ملز مالکان کا نہیں کاشتکاروں کا سوچنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بورڈ کی میٹنگ ہوئی پھر کابینہ کی اور اس کی منظوری کے بعد 5 دسمبر کو نوٹیفکیشن جاری ہوا۔

سماعت کے دوران جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ شوگر کی قیمت اور خرچہ بتایا جارہا ہے مگر گنے کی قیمت کے بارے میں بتایا جائے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ ارکان پارلیمان اور حکومت کے مضبوط لوگ شوگر ملز کا حصہ بن جائیں تو یہ معاملہ کبھی حل نہیں ہوگا۔

بدقسمتی ہے کہ پنجاب ہو یا سندھ شوگر ملز کے کاروبار میں ارکان پارلیمنٹ شامل ہیں۔

جسٹس عقیل نے کہا کہ ہم ایسا حکم دینا چاہتے ہیں کہ جس سے شوگر ملز بند نہ ہوں اور کاشتکاروں کا بھی نقصان نہ ہو، حکومت کوئی ایسا راستہ بتائے جس سے کاشتکاروں کو نقصان نہ ہو۔

اس موقع پرسندھ ہائی کورٹ نے حکومت سندھ سے 2014/15 میں کاشتکاروں کو 12 روپے سبسڈی برقرار رکھنے سے متعلق جواب طلب کرلیا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل کو حکومت سے مشاورت کرکے جواب داخل کرانے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ گنے کے کاشتکاروں کی جانب سے مطالبات کے حق میں کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا گیا تھا، تاہم مظاہرین پر پولیس کی جانب سے بد ترین لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی تھی، جس سے متعدد کاشتکار زخمی ہوگئے تھے۔

گنے کے کاشتکاروں کا مطالبہ تھا کہ ملز مالکان، صوبائی حکومت سے منظور شدہ قیمت سے کم پر گنا فروخت کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے گزشتہ ماہ کے اوائل میں سال 18-2017 کے لیے گنے کی فی من قیمت 182 روپے مقرر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پی ٹی آئی مظاہرین پر پولیس کا لاٹھی چارج، متعدد گرفتار

علاوہ ازیں اندرون سندھ میں گنے کے کاشتکاروں کے احتجاج کے دوران ایک کسان نے خود سوزی کی کوشش کی تھی اور اپنے جسم کو آگ لگا لی تھی، جس سے اس کے جسم کا 30 سے 40 فیصد جھلس گیا تھا۔

بعد ازاں رواں ماہ کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کاشتکاروں کی حمایت میں ریلی نکالی تھی اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے کی کوشش کی تھی، تاہم پولیس کی جانب سے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا تھا۔

کاشتکاروں کی حمایت میں ریلی اور پھر احتجاج کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کی تمام شوگر ملز کو 24 گھنٹے میں کرشنگ کے آغاز کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں