جنوبی افریقہ کے نسل پرستانہ عہد کے آخری صدر ڈی کلرک انتقال کر گئے

11 نومبر 2021
نسل پرستانہ عہد کے آخری صدر فریڈرک ولم ڈی کلرک  کے بعد نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدربنے تھے— فوٹو: فائل فوٹو: رائٹرز
نسل پرستانہ عہد کے آخری صدر فریڈرک ولم ڈی کلرک کے بعد نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدربنے تھے— فوٹو: فائل فوٹو: رائٹرز

جنوبی افریقہ کے نسل پرستانہ عہد کے آخری صدر فریڈرک ولم ڈی کلرک جمعرات کی صبح کیپ ٹاؤن میں انتقال کرگئے۔

ڈی کلرک فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ میسوتھولومیا کینسر کے عارضے کا شکار سابق صدر ڈی کلرک جمعرات کی صبح اپنے گھر میں انتقال کر گئے۔

تصاویر دیکھیں: عہد ساز شخصیت "نیلسن منڈیلا"

85 سالہ سابق صدر نے نسل پرستانہ عہد کو ترک کر کے دنیا کو دنگ کردیا تھا اور نیلسن منڈیلا کی زیر قیادت ایک سیاہ فام حکومت کو پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔

ان کو جنوبی افریقہ کو نسل پرستانہ عہد سے نکالنے اور اس عمل کی پرامن انداز میں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے نیلسن منڈیلا کے ہمراہ 1993 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

تاہم 1994 میں ہونے والے انتخابات سے قبل پرتشدد واقعات روکنے میں ناکامی پر انہیں جنوبی افریقہ کے سیاہ فام طبقے کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جہاں ایک طرف سیاہ فام طبقہ ان پر الزامات عائد کررہا تھا وہیں دوسری جانب پولینڈ اور فرانس سے آ کر جنوبی افریقہ میں آباد ہونے والی سفید فام افریقی اور ڈی کلرک کی نیشل پارٹی کی زیر سربراہی ملک پر حکومت کرنے والے رہنما سابق سدر کو غدار قرار دیتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ڈی کلرک نے قومیت اور سفید فام عوام کی بالادستی کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیلسن مینڈیلا۔ ایک عہد ساز شخصیت

گورباچوف کی سوویت یونین کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپ میں کمیونزم کے خاتمے نے ڈی کلرک کو تقویت فراہم کی کہ وہ نسل پرستانہ عہد کے خاتمے جیسے بے باک اقدامات اٹھائیں اور اس لعنت ستے چھٹکارا دلائیں جس نے افریقہ کی سیاہ فام آبادی کی نسلوں کو تباہ کردیا۔

’دیوار برلن‘ کے خاتمے کے محض تین ماہ بعد انہوں نے 2 فروری 1990 کو پارلیمنٹ میں دھواں دار تقریر کرتے ہوئے چار دہائیوں سے جاری نسل پرستانہ عہد کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد افریقی نیشنل کانگریس پر عائد پابندی ختم اور 27سال سے جیلوں میں بند اس کے رہنما رہا کردیے گئے تھے۔

دائیں بازو کے سفید فام افریقی وزرا اور مشیروں کے سخت ردعمل کے پیش نظر انہوں نے اس فیصلے کو کابینہ کے وزرا تک سے چھپایا تھا اور حتیٰ کہ ان کی بیوی کو بھی اس بات کو علم نہ تھا اور انہوں نے محض پارلیمنٹ جاتے ہوئے انہیں اس بات سے آگاہ کیا تھا۔

2006 میں ڈی کلرک کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر نیلسن منڈیلا نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے اس جرأت کا مظاہرہ کیا تھا جس کا اس صورتحال میں بہت کم لوگ کر پاتے۔

مزید پڑھیں: جرأت مندی کا نشان، عالمی رہنما نیلسن منڈیلا رخصت ہوئے

سابق افریقی صدر پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور ایک ایسی خفیہ سوسائٹی کے رکن تھے جو سفید فاموں کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی۔

انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1972 میں دائیں بازو کی سیاسی جماعت سے کیا تھا اور کئی سال تک ایک ایسے اسکول سسٹم کے وزیر رہے تھے جو سیاہ فام بچوں کے مقابلے میں سفید فام بچوں پر 10گنا زیادہ خرچ کرتی تھی۔

انہوں نے متعصبانہ نظام پر 1989 میں وزیر خزانہ بیرینڈ ڈیو پلسیی کو چیلنج کیا تھا اور اس کے چند ماہ بعد کابینہ کا تختہ الٹتے ہوئے پی ڈبلیو بوتھا کو صدر کے منصب سے بے دخل کردیا تھا۔

بوتھا سفید فام بالادستی اور جنوبی افریقہ میں نسل پرستی پر یقین رکھتے تھے اور 2006 میں انتقال تک انہیں اپنے اس اقدام پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔

1993 میں ڈی کلرک نے منڈیلا کے ہمراہ امن کا نوبیل انعام جیتا اور اس کے اگلے سال پہلے غیر نسل پرستانہ انتخابات میں منڈیلا صدر منتخب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں کامیابی سعودی عرب کی مرہون منت‘

ووٹ کے بعد نیشنل پارٹی اقتدار میں حصے دار بنی اور وہ نائب صدر منتخب ہوئے۔

البتہ منڈیلا اور ڈی کلرک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہی رہے اور 1996 میں وہ حکومت سے الگ ہو گئے تھے۔

وہ سیاست سے 1997 میں ریٹائر ہو گئے تھے اور نسل پرستانہ دور میں ہونے والے ظلم و ستم پر معافی بھی مانگی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں