قصور میں گاڑی نہ روکنے پر پولیس کی فائرنگ، ایک شخص جاں بحق، دو زخمی

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2021
پولیس نے مقتول کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے مقتول کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے راجا جنگ میں پولیس نے ڈرائیور کی جانب سے گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار ایک شخص جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے۔

پولیس نے مقتول اصغر علی کے بھائی محمد اشرف کی مدعیت میں واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے اور پانچ پولیس اہلکاروں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 324، 148 اور 149 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

ایف آئی آر میں تھانہ راجہ جنگ کے ایس ایچ او سعدی احمد، ٹی ایس آئی محمد وسیم، ساجد علی، شاہد اور محمد یعقوب کو نامزد کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اصغر علی، جہانزیب، عبدالجبار، رمضان اور جعفر ایک کار میں رائے ونڈ سے قصور جا رہے تھے، جب وہ راجا جنگ سے گزر رہے تھے تو ایک سرکاری گاڑی میں موجود پانچ پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو روکا لیکن اس وقت ڈرائیونگ کرنے والے جہانزیب فوری طور پر بریک نہ لگا سکے۔

ایف آئی آر کے مطابق کار پولیس کی گاڑی کے سامنے سے گزری جس پر پولیس پارٹی نے کار پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اصغر علی، جبار اور رمضان زخمی ہوئے اور انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قصور لے جایا گیا تاہم ہسپتال جاتے ہوئے اصغر دم توڑ گئے اور ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔

محمد اشرف نے ایف آئی آر میں انصاف کی فراہمی کی اپیل اور ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس پارٹی نے میرے بھائی اصغر علی، کو گولی مار کر ہلاک اور عبدالجبار اور رمضان کو زخمی کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال جیسے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں، گورنر پنجاب

ڈی ایس پی یعقوب اعوان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ایس ایچ او سعدی احمد فرار ہے۔

ساہیوال قتل کیس

راجہ جنگ شوٹنگ نے جنوری 2019 میں ساہیوال میں پیش آنے والے واقعے کی یادیں تازہ کر دی ہیں جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد بے گناہ افراد ہلاک ہو gئے تھے۔

پنجاب پولیس کے حکام نے اس واقعے کو ابتدائی طور پر دہشت گردوں پر فائرنگ قراردیا تھا جہاں اس واقعے کے نتیجے میں ایک خاندان کے تین افراد شوہر، بیوی اور ان کی نوعمر بیٹی اور ان کے پڑوسی کی موت واقع ہو گئی تھی۔

19 جنوری 2019 کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: پولیس اہلکاروں کی ’غلط فہمی‘ پر فائرنگ، ایک شخص جاں بحق

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

19 جنوری کو یوسف والا پولیس نے متوفی خلیل کے بھائی محمد جلیل کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302، 324، 337، اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

ابتدائی طور پر مقدمہ ساہیوال میں چلایا گیا تاہم، لاہور ہائی کورٹ نے 17 جون کو شکایت کنندہ کی جانب سے دائر درخواست کی اجازت دیتے ہوئے کارروائی کو لاہور منتقل کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: عدالت نے تمام ملزمان کو بری کردیا

ملزمان صفدر حسین، احسن خان، محمد رمضان، سیف اللہ، حسنین اکبر اور ناصر نواز پر ٹرائل کورٹ نے فرد جرم عائد کی تھی۔

تاہم بعد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چھ اہلکاروں کو قتل کے الزام سے تمام بری کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں