ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2019
مقدمہ درج ہونے کے بعد  لواحقین کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہرہ بھی ختم کردیا گیا۔
 — فائل فوٹو
مقدمہ درج ہونے کے بعد لواحقین کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہرہ بھی ختم کردیا گیا۔ — فائل فوٹو

ساہیوال میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اہلکاروں کی جانب سے مشکوک مقابلے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

پولیس کے مطابق مقدمہ مقابلے میں مارے جانے والے خلیل کے بھائی کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد لاہور میں لواحقین کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہرہ بھی ختم کردیا گیا۔

واضح رہے کہ ساہیوال واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین لاہور کے فیروز پور روڈ پر لاش رکھ کر احتجاج کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: 'بچوں کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے'

جاں بحق افراد کے ورثا کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا دورہ صرف خانہ پوری تھی ہم ان کے اقدامات سے مطمئن نہیں، جعلی مقابلہ کرنے والے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ہمارے سامنے لایا جائے۔

انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور پنجاب حکومت سے انصاف ملنے پر نا امیدی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی۔

دوسری جانب جاں بحق ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹس سامنے آگئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ واقعے میں خلیل کو سب سے زیادہ 13 گولیاں سینے اور ہاتھ پر لگیں جبکہ گاڑی چلانے والے ذیشان کو 10 گولیاں لگیں۔

رپورٹ کے مطابق خلیل کی بیٹی اریبہ کو سر اور جسم کے دیگر حصوں پر 6 گولیاں لگیں، جبکہ نبیلہ کو 4 گولیوں کے زخم آئے۔

خلیل کے بھائی جلیل نے بتایا کہ سانحے میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز متاثرہ خاندان کی جانب سے لاہور کے فیروز پور روڈ پر چنگی امر سدھو پر احتجاجاً بند کردیا گیا تھا۔

احتجاجی مظاہرے کے دوران سی ٹی ڈی حکام کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔

احتجاج کے باعث علاقے میں ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی۔

جلیل کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی بے گناہ تھے اور انہیں سی ٹی ڈی کی جھوٹی رپورٹس پر بیوی بچوں سمیت قتل کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ خلیل علاقے میں ایک جنرل اسٹور چلاتے تھے اور ان کا جرائم کے حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ میں سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے جبکہ زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے اور ان کی تحویل میں سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے جبکہ پولیس نے اس واقعے پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ والد کا نام خلیل احمد تھا اور وہ گاڑی چلا رہے تھے، جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

ادھر مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اعجاز حسین شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔

جے آئی ٹی کے دیگر 2 اراکین میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے شامل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Jan 20, 2019 01:05pm
kiya baat hai jiee...."Na Maloum"..........