سیشن عدالتوں میں غیر قانونی تقرریوں کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2021
سال 2012 میں اسلام آباد کے ایسٹ ڈویژن کی ضلعی عدالتوں میں غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
سال 2012 میں اسلام آباد کے ایسٹ ڈویژن کی ضلعی عدالتوں میں غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے دارالحکومت کی سیشن عدالتوں میں 103 غیر قانونی تقرریوں کے سلسلے میں 5 ججوں اور ایک ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف تحقیقات کے لیے جسٹس بابر ستار کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان پانچ ججوں میں سے 2 ضلعی و سیشن ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں جبکہ ایک اب بھی حاضر سروس ہیں، تفتیش کے دائرہ کار میں ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور ایک سینئر سول جج بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد کی سیشن عدالتوں میں 103 غیر قانونی تقرریوں کی محکمانہ تحقیقات کو رواں سال مئی میں حتمی شکل دی گئی تھی اور حتمی فیصلے کے لیے رپورٹ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو جمع کرا دی گئی تھی۔

ڈان کو حاصل ہونے والے تحقیقاتی حکم نامے کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس بابر ستار کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے تاکہ اسلام آباد کے سیشن ڈویژن شرقی اور سول ڈسٹرکٹ شرقی کی ڈیپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کی جائیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج سمیت 3 ججز نے حلف اٹھا لیا

مشاہدہ کیا گیا ہے کہ سال 2012 میں اسلام آباد کے ایسٹ ڈویژن کی ضلعی عدالتوں میں کی گئی بھرتیوں میں غیر قانونی طریقہ کار استعمال اور بے ضابطگیاں کی گئی ہیں۔

تحقیقات کے حکم نامے میں 2 سابق ضلعی و سیشن جج (ڈی ایس جے ایس) سید کوثر عباس زیدی اور عتیق الرحمٰن اور انسداد منشیات کی خصوصی عدالت (سی این ایس) کے جج کے طور پر کام کرنے والے ضلعی و سیشن جج واجد علی کے نام شامل ہیں۔

جس وقت غیر قانونی تقرریاں کی گئیں اس وقت سابق سید کوثر عباس زیدی سیشن ڈویژن (شرقی) میں ڈپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی (ڈی ایس سی) کے چیئرمین تھے اور عتیق الرحمٰن اور ایڈیشنل رجسٹرار علی کمیٹی کے رکن تھے۔

ڈی ایس سی برائے سول ضلع شرقی، چیئرمین ایڈیشنل ضلع و سیشن جج عبدالغفور کاکڑ اور 2 اراکین، سینئر سول جج محمد عامر عزیز اور ایڈیشنل رجسٹرار امتیاز احمد پر مشتمل تھی۔

تحقیقات کا حکم 19 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار فرحان عزیز خواجہ نے جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین نادرا کے تقرر کے خلاف درخواست مسترد کردی

ہائی کورٹ کے 2015 سے 2020 تک آڈٹ کے دوران آڈیٹرز کو معلوم ہوا کہ 103 غیر قانونی تقرریوں کی تحقیقات کو کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔

تاہم ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ’ایک انکوائری مکمل کرتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کر لیا گیا ہے، معاملے کے حتمی فیصلے کے لیے انکوائری رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس جمع کرادی گئی ہے‘۔

تحقیقات سیشن کورٹ میں ریڈرز، سول ناظر، اکاؤنٹنٹ، ریکارڈ کیپر اور دیگر کلریکل عہدوں کی 103 آسامیوں پر تقرر سے متعلق کی گئی ہے۔

عہدوں کی تشہیر قومی پریس کے ذریعے کی گئی تھی اور تمام امیدواروں کی اسناد کی ابتدائی جانچ پڑتال کے بعد سال 2012 میں 103 امیدوار ٹیسٹ میں شریک ہوئے تھے۔

متعدد درخواست گزاروں نے تقرریوں کے عمل کو چینلج کرتے ہوئے اس میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔

ایک درخواست گزار نے نشاندہی کی کہ 19 ایسے افراد کو تعینات کیا گیا جن کا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں شامل ہی نہیں تھا، بلکہ یہ افراد ان 30 ہزار امیدواروں میں بھی شامل نہیں تھے جنہوں نے ان آسامیوں کے لیے درخواست دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں