وزیراعظم کی لاپتا صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات، تفصیلی رپورٹ طلب

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2021
وزیراعظم نے مدثر نارو کے والدین اور بیٹے سے ملاقات کی —فوٹو: شیریں مزاری ٹوئٹر
وزیراعظم نے مدثر نارو کے والدین اور بیٹے سے ملاقات کی —فوٹو: شیریں مزاری ٹوئٹر

وزیراعظم عمران خان کی لاپتا صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور سرکاری عہدیداروں کو ان کے ٹھکانے اور گم شدگی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا حکم دے دیا۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ‘مدثر نارو کے والدین اور بیٹے نے دوپہر کو وزیراعظم سے ملاقات کی’۔

مزید پڑھیں: صحافی بازیابی کیس:’ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، یہ انہی کا کیا دھرا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘مدثرنارو کے والدین نے ان کے ساتھ پیش آنے والی مسائل سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا اور وزیراعظم نے انہیں یقین دہانی کروائی’۔

شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم نے ‘مدثر نارو کی موجودگی کے مقام اور ان کے ساتھ اصل جو پیش آیا اس پر رپورٹ طلب کی ہے’۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘مدثر نارو کے اہل خانہ نے وزیراعظم کی یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار کیا’۔

لاپتہ صحافی مدثر نارو کے والدین اور کم سن بیٹے سے وزیراعظم کی ملاقات اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کو ان کی ملاقات کرنے کے حکم کے بعد ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ صحافی کے کم سن بیٹے سے تعاون کو یقینی بنائیں گے۔

یاد رہے کہ مدثر نارو اگست 2018 میں وادی کاغان میں چھٹیاں گزارنے گئے تھے جہاں وہ لاپتہ ہوگئے تھے اور ان کو آخری مرتبہ دریائے کاغان کے قریب دیکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایک سال میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے 32 مقدمات درج ہوئے، اسلام آباد پولیس

ان کے اہل خانہ دوستوں نے ابتدائی طور پر یہی سمجھا کہ وہ حادثاتی طور پر دریا میں گرگئے ہوں لیکن تلاش کے باوجود سراغٖ نہیں ملا جبکہ خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ انہوں نے خود کشی کی ہو لیکن ان کے اہل خانہ اس خدشے کو رد کردیا تھا اور واضح کیا تھا وہ اس طرح کے دباؤ میں نہیں تھے۔

مدثرنارو کے اہل خانہ نے بعد ازاں نامعلوم افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ جمع کرائی تھی لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جس پر انہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس جانا پڑا لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔

بعد ازاں ان کے ایک دوست نے کہا کہ انہوں نے مدثر نارو کو لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے حراستی مرکز میں دیکھا تھا اور یہ ان کے حوالے سے آخری اطلاع تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ صحافی کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی اور مؤقف اپنایا گیا کہ لاپتہ صحافی انسانی حقوق کے کارکن تھے اور انہیں 19 اگست 2018 کو لاپتہ ہونے سے قبل ریاستی اداروں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

اکتوبر 2018 میں لاپتہ صحافی کے والد نے درخواست گزار کے طور پر جبری لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن سے رابطہ کیا اور اس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ انہیں جے آئی ٹی میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی رپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

اکتوبر 2018 میں مقدمے کے اندراج سے رواں برس عدالت میں درخواست دائر کرنے تک کمیشن کی جانب سے کئی سماعتیں رکھی گئیں۔

جے آئی ٹی کے مطابق صحافی خود لاپتہ ہوگئے ہیں۔

‘انسانیت کے خلاف جرم’

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ ہفتے سماعت کے دوران انسانی حقوق وزیر شیریں مزاری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ریاست نظر نہیں آرہی، ملک میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں، کسی کا لاپتا ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم اور کابینہ ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں، لاپتا شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا ردعمل قابل افسوس ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ریاست، ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہی، اگر اس عدالت میں کوئی بھی متاثرہ شخص آتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتا ہو گیا تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا نوٹس لے لیا

انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے، کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہوگا؟ پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آجائے گی، ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتا شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہیں، تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں، یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں، لاپتا شخص کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ خاندان کو سنے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر سے کہا تھا کہ ان اہل خانہ کو وزیر اعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ آپ کوشش کریں کہ یہ وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں، لاپتا افراد کی ذمہ داری تو وزیر اعظم اور کابینہ ارکان پر آتی ہے، ریاست کے بجائے زرتلافی وزیر اعظم اور کابینہ ارکان کیوں نہ ادا کریں؟ تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی 2002 میں لاپتا ہوا تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نہ کہا جائے؟ جبری گمشدگیوں میں صرف ریاستی نہیں غیر ریاستی عناصر بھی آتے ہیں، کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں