صحافی بازیابی کیس:’ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، یہ انہی کا کیا دھرا ہے‘

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2021
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ایک لاپتا ہو جائے تو اس کا پورا خاندان تکلیف اٹھاتا ہے — فائل فوٹو / اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ایک لاپتا ہو جائے تو اس کا پورا خاندان تکلیف اٹھاتا ہے — فائل فوٹو / اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا صحافی مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا دھرا ہے۔

صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔

سماعت کے دوران وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، لاپتا مدثر نارو کے والد کی جانب سے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ ایمان مزاری ایڈووکیٹ بیماری کے باعث پیش نہ ہو سکیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

کسی کا لاپتا ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شیریں مزاری صاحبہ، آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ریاست نظر نہیں آرہی، ملک میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں، کسی کا لاپتا ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور کابینہ ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں، لاپتا شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا ردعمل قابل افسوس ہے۔

مزید پڑھیں: ایک سال میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے 32 مقدمات درج ہوئے، اسلام آباد پولیس

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریاست، ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہی، اگر اس عدالت میں کوئی بھی متاثرہ شخص آتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتا ہو گیا تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ آپ نے پہلے بھی قیدیوں کے معاملے پر بلوایا تھا، جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا، ہم نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے، سینیٹ میں جلد بھجوایا جائے گا جبکہ وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی عمران خان کا اس مسئلے پر واضح مؤقف رہا ہے۔

’کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہوجائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہوگا؟‘

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے، کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہوگا؟ پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آجائے گی، ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتا شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہیں، تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں، یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں، لاپتا شخص کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ خاندان کو سنے۔

وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے عمل کریں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں۔

لاپتا شخص کے کمسن بچے،والدہ کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی، شیریں مزاری

شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم ان کو ضرور سنیں گے، پہلے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی کا بھی عمل کر لیں، لاپتا شخص کے کمسن بچے اور والدہ کی وزیر اعظم سے ملاقات کرائی جائے گی، اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک ان کو زرتلافی کی رقم کی ادائیگی کا عمل مکمل کرنے دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے، جمہوریت میں کسی کو لاپتا کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کوشش کریں کہ یہ وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں، لاپتا افراد کی ذمہ داری تو وزیر اعظم اور کابینہ ارکان پر آتی ہے، ریاست کے بجائے زرتلافی وزیر اعظم اور کابینہ ارکان کیوں نہ ادا کریں؟ تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی 2002 میں لاپتا ہوا تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نہ کہا جائے؟ جبری گمشدگیوں میں صرف ریاستی نہیں غیر ریاستی عناصر بھی آتے ہیں، کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایک لاپتا ہو جائے تو اس کا پورا خاندان تکلیف اٹھاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

وفاقی وزیر نے کہا کہ آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، ریاست کا ردعمل ہر لاپتا شخص کے کیس میں ایک جیسا ہونا چاہیے۔

یہ بہت ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو چیف جسٹس ہائی کورٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو ورنہ اس کو نہیں روکا جاسکتا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہم کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا دھرا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک ہفتے کا مزید وقت دے دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں، ایک شخص تین سال سے لاپتا ہے۔

عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک مدثر نارو کے خاندان کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر شیریں مزاری سے جواب طلب کر لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں