اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا آخری شخص ہوں گا جو عدلیہ کی بے توقیری کرے۔

جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجربینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: جج کو انکوائری کے بغیر ہٹانے سے غلط مثال قائم ہوسکتی ہے، وکیل شوکت صدیقی

جسٹس عمرعطا بندیال نے وکیل سے کہا کہ سنگین الزمات لگانے کے بجائے حقائق پر مبنی دلائل دیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے دو بار شوکت صدیقی کو الزامات ثابت کرنے کا موقع دیا اور عدالت نے بھی موقع دیا ہے کہ تقریر میں لگائے گئے الزامات ثابت کریں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کی اس معاملے پر بھی معاونت کریں کہ مس کنڈکٹ کیا ہوتا ہے۔

سماعت کے دوران سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ بینچ کا کوئی رکن جانب دار ہے، درخواست خارج ہوجائے تو بھی عدلیہ کو موردالزام نہیں ٹھہرائوں گا۔

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ دنیا کا آخری شخص ہوں گا جو عدلیہ کی بے توقیری کرے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں’، شوکت صدیقی کا سپریم کورٹ میں سخت مؤقف

بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کہتے ہیں پوری سپریم جوڈیشل کونسل جانب دار تھی، آپ کے مطابق شوکت صدیقی کے خلاف پچھلا ریفرنس بھی بدنیتی پر مبنی تھا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ پہلے والا ریفرنس سننے والی سپریم جوڈیشل کونسل کا میں بھی رکن تھا، اگر پوری کونسل پر بدنیتی کا الزام ہے تو میرا بینچ میں بیٹھنا مناسب نہیں، درخواست میں جانب داری کا الزام چیف جسٹس اور سینئر جج پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ کونسل میں شامل تھا لیکن ان ریفرنسز پر ابھی فیصلہ نہیں دیا تھا، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ کونسل کا ایک حصہ جانب دار ہو تو الزام پوری باڈی پر آتا ہے، تحریری اعتراض تو دو ججوں پرہی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کونسل میں شامل ہائی کورٹ ججوں کو تو کیس کا علم ہی نہیں ہوتا، صرف نوٹس آتا ہے کہ کونسل کا اجلاس ہے آجاؤ۔

انہوں نے کہا کہ کونسل کے 3 ارکان کا کردار تو شروع ہی فیصلہ لکھتے وقت ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا اپنے کیس کی جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو خط

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ضابطے کی کارروائی میں اگر مواد سامنے ہو تو ثبوت نہیں چاہیے ہوتے ہیں، آپ ثابت کر دیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے تقریر میں جو کہا وہ مس کنڈکٹ نہیں تب بات بنے گی۔

سپریم کورٹ کے لاجر بینچ نے درخواست سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔

جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے نومبر 2020 کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

بظاہر یہ ان کا تیسرا ایسا خط تھا جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

اس سے قبل 24 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلہ کا انتظار کریں جو جلد ہی آنے والا ہوگا۔

بعد ازاں 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری کیا گیا جبکہ 4 نومبر کو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس جاری ہوئے تھے۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی کہ وہ (شوکت عزیز صدیقی) 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں