صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی سفارش پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو متنازع تقریر کے معاملے پر انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا۔

وزارت قانون و انصاف نے جسٹس شوکت عزیز صدیق کی برطرفی کا نوٹیفکیش بھی جاری کردیا۔

وزارت کے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ آرٹیکل 209 (5) اور سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان کی جانب سے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 209 (6) کے ساتھ آرٹیکل 48 (1) کے تحت کی جانے والی سفارش پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اداروں کے خلاف متنازع تقریر کے معاملے پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

ذرائع کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کو ہٹانے کے لیے سمری سیکریٹری قانون کو بھجوائی تھی، جسے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج ہیں جن کے خلاف ملک کے اہم اداروں کے خلاف متنازع بیان دینے کے معاملے میں تحقیقات جاری تھیں۔

میرے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں، شوکت عزیز صدیقی

عہدے سے ہٹائے جانے پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رد عمل دیا کہ میرے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں، تقریبا 3 سال پہلے سرکاری رہائش گاہ کی مبینہ آرائش کے نام پر شروع ہونے والے ایک بے بنیاد ریفرنس سے پوری کوشش کے باوجود جب کچھ نہ ملا تو ایک بار ایسوسی ایشن سے میرے خطاب کو جواز بنا لیا گیا، جس کا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے مطالبے اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود یہ ریفرنس کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا اور نہ ہی میری تقریر میں بیان کئے گئے حقائق کو جانچنے کے لیے کوئی کمیشن بنایا گیا۔

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ میں اللہ کے فضل و کرم سے اپنے ضمیر، اپنی قوم اور اپنے منصب کے تقاضوں کے سامنے پوری طرح مطمئن اور سرخرو ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ انشا اللہ اپنا تفصیلی موقف بہت جلد عوام کے سامنے رکھوں گا اور ان حقائق سے بھی آگاہ کروں گا جو میں نے اپنے تحریری بیان میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھے تھے اور بتاوں گا کہ تقریبا نصف صدی بعد ہائی کورٹ کے ایک جج کو اس طرح معزول کرنے کے حقیقی اسباب کیا تھے۔

متنازع تقریر

یاد رہے کہ 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: پاک فوج کا جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

انہوں نے کہا تھا کہ ’خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا تھا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا‘۔

اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’مجھے پتہ ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔

اس کے بعد 22 جولائی کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازع بیان کا نوٹس لے لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی اداروں پر الزامات: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹس جاری

چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ ’پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں‘، تاہم انہوں نے معاملے کا جائزہ لینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

22 جولائی کو ہی پاک فوج نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ریاستی ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد یکم اگست 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کا عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2 ریفرنسز زیر التوا ہیں، جن میں ایک ریفرنس بدعنوانی سے متعلق ہے، جو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک ملازم کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف پہلا ریفرنس سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور علی گوپانگ نے دائر کیا تھا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے 80 لاکھ روپے خرچ کیے حالانکہ وہ یہاں یہ رقم خرچ کرنے کے حق دار نہ تھے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف دوسرا ریفرنس گزشتہ برس ہونے والے فیض آباد دھرنے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں ان کے ریمارکس سے متعلق ہے، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سوالات اٹھائے تھے، یہ ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم خالق نے دائر کیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دونوں ریفرنسز کو کھلی عدالت میں سننے کی درخواست دی تھی جس پر کارروائی ابھی جاری تھی۔

رواں سال 21 جولائی کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کیا تھا، اس خطاب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی عدلیہ کے امور میں مداخلت کررہی ہے، خفیہ ادارے والے عدالت کے بینچ بنانے کے معاملے میں مداخلت کررہے ہیں۔

یہ بات جسٹس صدیقی نے اس وقت کہی جب شریف خاندان کی پاناما اپیلوں پر ہائیکورٹ میں سماعت ہورہی تھی اور بینچ بھی تبدیل ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں