سعودی عرب: یمنی شہری کو 'لادینیت' کےفروغ کے جرم میں 15 سال قید

20 دسمبر 2021
اس سلسلے میں ریاض کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے— فائل فوٹو: سعودی گزٹ
اس سلسلے میں ریاض کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے— فائل فوٹو: سعودی گزٹ

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ سعودی عدالت نے یمن کے ایک شہری کو مذہب چھوڑنے، روشن خیالی کے تحت توہین مذہب کو جرم قرار نہ دینے کے لیے حکومت پر زور دینے کے جرم میں 15 سال قید کی سزا سنائی دی۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا تھا کہ 38 سالہ علی ابو لہم پر ’دو نامعلوم ٹوئٹر اکاؤنٹس‘ کے ذریعے تبصرہ کرنے کا الزام تھا، جس پر پراسیکیوٹر نے دلیل دی تھی کہ دونوں اکاؤنٹس ملزم کے نام پر رجسٹرڈ فون نمبرز پر بنائے گئے ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا تھا کہ ’عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ مذکورہ اکاؤنٹس سے کیے گئے ٹوئٹس ’مذہب چھوڑنے، بے یقینی اور لادینیت‘ کو فروغ دے رہے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مقدمے کی سماعت میں ملزمان کے گواہان کی عدم موجودگی میں ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کی عدالت نے 20 سال بعد اغوا کیس سلجھادیا

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا تھا کہ علی ابو لہم پر سماجی میڈیا پر’لادینیت‘ سمیت ’عوامی نظم و نسق میں تعصب، مذہبی قدروں اور عوامی اخلاقیات کے خلاف مواد شائع کرنے کا الزام تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ علی ابو لہم ’لادینیت کو فروغ دینے‘ میں ملوث پایا گیا اور اسے ’مذہب چھوڑنے کے جرم میں 15 سال قید کی سزا سنائی گئی‘، لیکن الزامات کے حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔

اس سلسلے میں ریاض کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ علی ابو لہم کے خلاف اکتوبر میں مقدمہ شروع کیا گیا تھا تاہم اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار تھا۔

علی ابو علی لہم کو یمن کی سرحد سے متصل نجران کی جیل میں قید کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی نے سعودی عرب کی خفیہ عدالت کو ’جبر کا ہتھیار‘ قرار دے دیا

سعودی سلطنت یمن کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کے ہمراہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں جنگ لڑ رہی ہے۔

دوسری جانب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی ایک اعتدال پسند، کاروباری دوستانہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ تیل سے ہٹ کر معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی حکومت نے حال ہی میں سیاحت، انٹرٹینمنٹ، اور کھیلوں کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔

ایچ آر ڈبلیو مشرق وسطیٰ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’سعودی حکام کو جدیدیت کی جانب بڑھنے کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے ایمان میں مداخلت سے نہ کرنے کی پالیسی اپنانی ہوگی، انہوں نے اس عمل کو مذہبی تعصب قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں