سعودی عرب کی عدالت نے 20 سال بعد اغوا کیس سلجھادیا

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2020
سعودی عدالت نے 40 سماعتیں کیں—فوٹو: سعودی گزٹ
سعودی عدالت نے 40 سماعتیں کیں—فوٹو: سعودی گزٹ

سعودی عرب کے سرکاری وکلا نے کہا ہے کہ 20 سال قبل مشرقی صوبے سے اغوا کیے گئے بچوں کے کیس کو سلجھا دیا گیا اور عدالت نے ایک خاتون سمیت 5 ملزمان پر زمین پر فساد پھیلانے، سرکاری افسران سے جھوٹ بولنے اور بچوں کو 20 سال تک اغوا رکھنے جیسے سنگین الزامات کے تحت فرد جرم عائد کردی۔

مذکورہ کیس فروری 2020 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب کہ دمام کی پولیس نے 50 سالہ ایک خاتون کو گرفتار کیا تھا۔

گرفتار کی گئی خاتون نے مسلسل تین بار صرف نوزائیدہ لڑکوں کو ہی اغوا کیا تھا اور انہوں نے پہلے بچے کو 1993، دوسرے کو 1996 اور تیسرے کو 1999 میں اغوا کیا تھا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ اغواکار خاتون نے بچوں کو اغوا کے وقت سے لے کر جوان ہونے تک عام لوگوں سے چھپائے رکھا جب کہ انہوں نے بچوں کو قبول نہ کرنے پر پہلے شوہر سے طلاق بھی لے لی تھی اور اس نے اپنے تمام رشتہ داروں سے بھی تعلق تقریبا ختم کردیا تھا اور ان کے اہل خانہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہیں۔

خاتون کو پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ مشرقی صوبے کے شہر دمام کے قریبی پولیس تھانے میں بچوں کے جوان ہونے کے بعد ان کے قانونی دستاویزات حاصل کرنے آئیں تھیں۔

خاتون نے ابتدائی طور پر پولیس کو بتایا تھا کہ یہ تمام بچے ان کے ہی ہیں تاہم جب پولیس نے ڈی این اے ٹیسٹ کیا تو تینوں بیٹوں کے ڈی این اے ان سے میچ نہیں ہوئے جس کے بعد خاتون نے اپنا بیان بدلا اور کہا کہ تینوں بچے انہیں کئی سال قبل لاوارث حالت میں ملے تھے۔

بعد ازاں پولیس نے گزشتہ تین دہائیوں سے بچوں کے اغوا سے متعلق کیسز کا جائزہ لیا اور بچوں کی شکایات درج کروانے والے اہل خانہ کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے تو تمام بچوں کے ڈی این اے مختلف خاندانوں سے مل گئے اور پولیس نے نوجوان بچے اپنے اصلی والدین کے حوالے کرتے ہوئے خاتون کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی اغوا کار خاتون 20 سال بعد گرفتار

اور اب سرکاری وکلا نے بتایا کہ مذکورہ کیس کی قانونی کارروائی مکمل کرکے خاتون سمیت دیگر 5 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

خاتون کی جانب سے اغوا کیا گیا بچہ جوانی میں اصلی والد سے ملتے ہوئے—فوٹو: گلف نیوز
خاتون کی جانب سے اغوا کیا گیا بچہ جوانی میں اصلی والد سے ملتے ہوئے—فوٹو: گلف نیوز

سعودی عرب کے اخبار سعودی گزٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پبلک پروسیکیوشن کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق مذکورہ کیس سے متعلق پولیس اور عدالت کی تفتیشی ٹیم نے 247 اقدام کیے، جب کہ کیس میں 21 عینی گواہوں اور ملزمان کے بیانات 40 سماعتوں کے دوران ریکارڈ کیے گئے۔

سرکاری وکلا کے مطابق عدالت نے سماعتوں کے دوران خاتون کے علاوہ دیگر پانچ ملزمان پر بھی فرد جرم عائد کی اور جن افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں سے ایک یمنی شہری ہے جب کہ ایک ملزم سعودی عرب سے باہر ہیں جس کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرلیا گیا ہے۔

سرکاری وکلا کا کہنا تھا کہ عدالت نے اگرچہ تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کردی ہے، تاہم تاحال انہیں سزائیں نہیں سنائی گئیں اور سرکاری وکلا نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ کیس کے 5 میں سے 3 ملزمان کو سر قلم کرنے کی سزا سنائی جائے جب کہ باقی ملزمان کو بھی سخت سزا دی جائے تاکہ ملک میں ایسے جرم کرنے والے افراد سبق سیکھیں۔

سرکاری وکلا کے مطابق انہوں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ 5 میں سے تین ملزمان کو اسلامی قوانین حرابہ کے تحت سزا سنائی جائے، جس کے تحت ان ملزمان کا سر قلم کیا جائے گا، کیوں کہ ان ملزمان نے زمین پر فساد پھیلانے کے جرم کا ارتکاب کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں