دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی کورونا وائرس کی قسم اومیکرون ویسی بیماری نہیں جس کا سامنا ایک سال قبل ہوا تھا۔

یہ بات برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر نے کرتے ہوئے ان رپورٹس کو تقویت دی کہ کورونا کی اس نئی قسم سے ہونے والی بیماری کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں میڈیسین پروفیسر جان بیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نومبر 2021 کے آخر میں دریافت ہونے والی قسم زیادہ بیمار نہیں کرتی اور جن مریضوں کو ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے، وہاں ان کا قیام دیگر اقسام کے مقابلے میں مختصر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال قبل جن خوفناک مناظر کو ہم نے دیکھا یعنی آئی سی یو یونٹس بھر جانا، متعدد افراد کی موت وغیرہ ہمارے خیال میں اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا 'میرے خیال سے ہمیں لوگوں کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیے کہ موجودہ رجحان آگے بھی برقرار رہے گا'۔

یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب برطانوی حکومت نے کہا کہ سال کے اختتام سے قبل برطانیہ میں سخت پابندیوں کا نفاذ نہیں کیا جائے گا۔

پروفیسر جان بیل نے کہا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ اومیکرون سے ہونے والی بیماری کی شدت ماضی کی اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں اور بیشر افراد کو ہسپتال میں کم وقت تک قیام کرنا پڑتا ہے، جبکہ بہت کم افراد کو آکسیجن کے زیادہ بہاؤ کی ضرورت پڑی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کووڈ کی سابقہ لہروں میں بیماری کی سنگین شدت اور اموات کی شرح میں ویکسینیشن کے بعد سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

دوسری جانب این ایچ ایس پرووائڈرز چیف ایگزیکٹیو کرس ہوپسن نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ معمر آبادی میں کیسز کی شرح بڑھنے پر کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کرسمس کے موقع پر کافی سماجی میل جول ہوا تو ہمیں انتظار کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں مریضوں کی ہسپتال میں تعداد کس حد تک بڑھتی ہے۔

ریڈنگ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سائمن کلارک نے برطانوی حکومت کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ سے انکار پر خبردار کیا کہ نیا ڈیٹا نامکمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیسز کے موجودہ اعدادوشمار میں کرسمس کے اعدادوشمار شامل نہیں اور اس ڈیٹا سے واضح ہوگا کہ وائرس کس حد تک آبادی میں پھیل رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں