کووڈ 19 سے منسلک علامات کی فہرست کافی طویل ہے جس میں سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی سے لے کر جلد کے مسائل بھی شامل ہیں۔

مگر کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے طبی حکام کی جانب سے چند علامات کو بنیادی قرار دیا جارہا ہے یعنی کھانسی اور بخار کو۔

کورونا وائرس کی نئی اومیکرون کے کیسز اب دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہے ہیں مگر متعدد کیسز میں یہ علامات یہ ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ عام نزلہ زکام جیسی نشانیوں کو زیادہ رپورٹ کیا جارہا ہے۔

اس نئی قسم کے بارے میں ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے مگر اب تک جو کچھ معلوم ہوچکا ہے وہ درج ذیل ہے۔

اومیکرون کی سب سے عام علامات کونسی ہیں؟

اس حوالے سے رپورٹس کے نتائج مختلف ہیں مگر نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کے وبائی امراض کی ماہر اسٹیفنی اسٹرلنگ کا کہنا ہے کہ اومیکرون قسم کسی عام کورونا وائرس کی طرح کام کررہی ہے، یعنی ایسا وائرس جو عام نزلہ زکام کا باعث بنتا ہے۔

کووڈ 19 کی علامات پر نظر رکھنے والی ایپ چلانے والے پروفیسر ٹم اسپیکٹر کے مطابق اس تبدیلی کا آغاز ڈیلٹا قسم سے ہوا اور اومیکرون میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا۔

اس ایپ کے ڈیٹا کے لیے 47 لاکھ سے زیادہ افراد نے تعاون کیا اور ڈیٹا سے اومیکرون کی 5 عام ترین علامات کا عندیہ ملتا ہے۔

ڈیٹا کے مطابق اومیکرون کی 5 عام ترین علامات میں ناک بہنا، سردرد، تھکاوٹ، چھینکیں اور گلے کی سوجن شامل ہیں۔

ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ کووڈ کی کلاسیک علامات یعنی بخار، کھانسی اور سونگھنے کی حس سے محرومی کی شرح ایلفا قسم کے مقابلے میں ڈیلٹا میں کچھ کم تھی اور نزلہ زکام جیسی علامات زیادہ عام تھیں، اومیکرون میں بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

دیگر تحقیقی رپورٹس کے نتائج کچھ مختلف ہیں۔

جنوبی کے بڑے ہیلتھ انشورر نے ناک بند ہونے، گلے کی سوجن یا خراش، خشک کھانسی اور کمر کے نچلے حصے میں تکلیف کو اومیکرون کی عام علامات قرار دیا ہے۔

ناروے کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں ناک بہنا اور تھکاوٹ عام علامات تھیں۔

اس تحقیق میں شامل ماہرین نے مریضوں میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں میں بھی نمایاں کمی کو بھی دریافت کیا۔

اسٹیفنی اسٹرلنگ کے مطابق ہر فرد میں علامات مختلف ہوسکتی ہیں تو کھانسی اور بخار نہ ہونے پر خود کو کووڈ سے محفوظ سمجھنا نہیں چاہیے، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں اومیکرون کی شرح زیادہ ہو، بالکل نظام تنفس کی علامات کو اومیکرون سمجھنا چاہیے۔

کیا اومیکرون کی علامات کی شدت بہت زیادہ نہیں ہوتی؟

اومیکرون کے حوالے سے جنوبی افریقہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملا ہے کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں دیگر اقساام کے مقابلے علامات کی شدت معتدل ہوتی ہے۔

دسمبر 2021 میں ایک برطانوی رپورٹ میں دریافت کیا گیا تھا کہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں اومیکرون سے مقابلے میں بیمار ہونے والے 50 فیصد کم افراد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر اسٹیفنی اسٹرلنگ کے مطابق کووڈ کا معتدل کیس بھی آپ کو کافی بیمار اور طویل المعیاد پیچیدگیوں جیسے لانگ کووڈ کا شکار بناسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ اومیکرون بذات خود کووڈ کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم شدت والی قسم ہے یا آبادی میں ویکسینیشن اور بیماری کی سابقہ لہروں سے پیدا ہونے والی مدافعت نے اس کا اثر کم کیا ہے۔

تو بہتر یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے۔

اومیکرون کی علامات دیگر اقسام سے مختلف کیوں ہیں؟

محققین کی جانب سے اس سوال کے جواب کو جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے مگر اسٹیفنی اسٹرلنگ کے مطابق اس کی ممکنہ وجہ اس نئی قسم میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیاں ہیں۔

ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون کے وائرل ذرات کا زیادہ اجتماع پھیپھڑوں کی بجائے بالائی نظام تنفس میں ہوتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر عام نزلہ زکام جیسی علامات سامنے آتی ہیں، مگر اس حوالے سے ابھی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں