نئے عہدوں کے قیام کا معاملہ، وزارت اطلاعات اور پیمرا میں ٹھن گئی

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2022
وزارت اطلاعات کے مطابق فنانس ڈویژن کے دفتری میمورنڈم میں سرکاری محکموں میں نئے عہدے قائم کرنے پر پابندی  ہے — فائل فوٹو: ڈان
وزارت اطلاعات کے مطابق فنانس ڈویژن کے دفتری میمورنڈم میں سرکاری محکموں میں نئے عہدے قائم کرنے پر پابندی ہے — فائل فوٹو: ڈان

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور وزارت اطلاعات و نشریات کے درمیان پانچ نئے اعلیٰ سطح کے عہدوں کا قیام تنازع کا سبب بن گیا ہے۔

اس سے پہلے کفایت شعاری کے اقدامات کو اور اسٹیبلشمنٹ اور فنانس ڈویژن کو نظر انداز کرنے پر وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے پیمرا کی سرزنش کی جاچکی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 6 دسمبر 2021 کو ہونے والے اپنے 167ویں اجلاس میں پیمرا نے پانچ عہدے قائم کرنے کی منظوری دی تھی، جس میں سینئر ڈائریکٹر جنرل (گریڈ 21، پی ایس 11 کے مساوی) اور ڈائریکٹر جنرل کے چار عہدے (گریڈ 20، پی ایس 10 کے مساوی) شامل تھے۔

تاہم وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے 10 جنوری 2022 کو بھیجے گئے ایک خط میں، جس کی ایک کاپی ڈان کے پاس موجود ہے، وزارت نے پیمرا کی جانب سے عہدوں کے قیام پر سوال اٹھایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا کے اندرونی جھگڑے وزارت اطلاعات کے ساتھ تنازع میں تبدیل

وزارت اطلاعات کے مطابق یہ عمل 15 جولائی 2021 کے فنانس ڈویژن کے دفتری میمورنڈم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

مذکورہ میمو میں سرکاری محکموں میں نئے عہدے قائم کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے، سوائے ان عہدوں کے جو ترقیاتی منصوبوں کے لیے درکار ہیں اور وہ بھی متعلقہ حکام کی منظوری سے ہی ممکن ہے۔

وزارت اطلاعات نے پیمرا کو عہدوں کے قیام سے متعلق ہدایت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ سینئر ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدوں پر ترقی یا کسی اور طریقے سے کوئی بھی تقرری انتظامی اور مالی بدانتظامی کے مترادف ہوگی اور اس کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

تاہم پیمرا کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ اتھارٹی، مالی اور انتظامی معاملات میں حکومت کی پابند نہیں ہے اور وزارت کا خط ’حقائق کی غلط تشریح‘ پر مبنی ہے۔

وزارت اطلاعات کا خط

وزارت اطلاعات کے خط میں بتایا گیا ہے کہ ’سیکریٹری برائے اتھارٹی اور پیمرا ہیڈ کوارٹر کے ڈائریکٹر جنرل ہیومن ریسورس نے فنانس ڈویژن کی ہدایات کو اتھارٹی اراکین تک نہیں پہنچایا جن پر وزارتوں، ڈویژن، محکمے اور تنظیموں پر تعمیل کرنا ضروری ہے۔‘

خط میں مزید کہا گیا کہ ’تمام وزارتوں/ڈویژنز/محکموں/تنظیموں میں فنانس ڈویژن کی جانب سے پوسٹوں کے قیام پر واضح پابندی کے باوجود، پیمرا نے ایچ آر کو پانچ رکنی کمیٹی کی سفارشات کی متفقہ طور پر منظوری دی‘۔

وزارت اطلاعات نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ مذکورہ میمو کی روشنی میں فنانس ڈویژن کی منظوری کے بغیر سینئر ڈائریکٹر جنرل کی سیٹ کیسے بنائی اور پُر کی جاسکتی ہے۔

وزارت اطلاعات نے ہر صوبے کے لیے ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) کے چار عہدوں کے قیام پر نشاندہی کی کہ پیمرا میں ڈائریکٹر جنرلز کی موجودہ تعداد 10 ہے اور فنانس ڈویژن کی منظوری کے بغیر اس پر نظر ثانی نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھیں: پیمرا کا 'قابل اعتراض مواد' نشر نہ کرنے کا نوٹی فکیشن لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

خط کے مطابق مالی سال 21-2020 کے لیے پیمرا کے سالانہ اخراجات 2 ارب 63 کروڑ روپے تھے اور ادارے کے ریگولر ملازمین کی مجموعی تعداد 593 ہے، پی ایس 11 اور پی ایس 10 کی 5 آسامیاں بنانے سے تنظیم کے مجموعی اخراجات بڑھ جائیں گے۔

وزارت اطلاعات نے پیمرا کو اس کی کارکردگی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ پیمرا کی اعلیٰ انتظامیہ کی کارکردگی پہلے ہی سوالوں کے دائرے میں ہے اور اتھارٹی کی جانب سے پانچ پوسٹوں کے قیام کی منظوری بغیر کسی ٹھوس جواز کے ہے۔

ممکنہ طور پر یہ ایک شکایت پر کی جانے والی کارروائی کا حوالہ تھا، جو 2020 میں پیمرا کے خلاف سینئر افسران کی شمولیت اور ترقی کے حوالے سے درج کی گئی تھی۔

11 نومبر 2020 کو وزیر اعظم آفس نے پیمرا کے ایک معطل ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے دائر شکایت پر وزارت اطلاعات سے معاملے کی تحقیقات کرنے کو کہا تھا۔

وزارت اطلاعات نے پیمرا کو ہدایت کی تھی کہ ’اس حوالے سے 20 نومبر 2020 سے پہلے وزارت کو رپورٹ پیش کی جائے‘۔

تاہم اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے بعد وزیراعظم آفس نے 24 مئی کو وزارت اطلاعات کو ایک یاد دہانی خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ ’رپورٹ کا انتظار ہے، درخواست کی جاتی ہے کہ اس پر تیزی سے کام کیا جائے۔‘

اس کے بعد وزارت اطلاعات نے 17 جون کو ایک چار رکنی ٹیم تشکیل دی، جس کی سربراہی ایڈیشنل انفارمیشن نے کی تاکہ 7 پیمرا افسران کی غیر قانونی تقرریوں اور ڈائریکٹر جنرل حاجی آدم کے خلاف شکایات کی تحقیقات کی جا سکے۔

پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے، ترجمان

وزارت اطلاعات کی جانب سے پیمرا کو لکھے گئے خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی تنظیم نو یا توسیعی منصوبہ رولز آف بزنس 1973 کے مطابق ہونا چاہیے کیونکہ پیمرا وزارت اطلاعات و نشریات کے انتظامی دائرہ کار میں آتا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ایسا اہم فیصلہ سیکرٹری اطلاعات کی غیر موجودگی میں لیا گیا۔

واضح رہے کہ سیکرiٹری اطلاعات پیمرا بورڈ کے سابقہ رکن ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے پیمرا کا لائسنس معطلی کا اختیار کالعدم قرار دے دیا

تاہم پیمرا کے ترجمان محمد طاہر نے ڈان کو بتایا کہ پیمرا بورڈ 12 ارکان پر مشتمل ہے اور سیکرٹری اطلاعات کے پاس صرف ایک ووٹ تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری اطلاعات طبیعت ناساز ہونے کے باعث اس اجلاس سے غیر حاضر تھے جس میں نئی آسامیاں بنانے کی منظوری دی گئی تھی، اگر وہ اجلاس میں شریک ہوتے تو اختلافی نوٹ لکھ سکتے تھے۔

ان کے خیال میں چونکہ پیمرا اپنے طور پر ریونیو پیدا کرتا ہے اور کبھی بھی حکومت سے کوئی مالی امداد نہیں مانگتا، اس لیے وہ فنانس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی منظوری کے بغیر اپنا اسٹرکچر تشکیل دے سکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ چونکہ الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹر ایک خود مختار ادارہ ہے، اس لیے فنانس ڈویژن کی پابندیوں پر عمل کرنا اس کی لازمی ذمہ داری نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں