پیمرا کے اندرونی جھگڑے وزارت اطلاعات کے ساتھ تنازع میں تبدیل

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
شکایت کنندہ نے اسی طرح کے الزامات ایک اور ڈائریکٹر جنرل وکیل خان کے معاملے میں بھی لگائے تھے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
شکایت کنندہ نے اسی طرح کے الزامات ایک اور ڈائریکٹر جنرل وکیل خان کے معاملے میں بھی لگائے تھے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے اعلیٰ عہدیداروں میں جھگڑا وزارت اطلاعات و نشریات اور میڈیا واچ ڈاگ کے مابین تنازع میں تبدیل ہو گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے سامنے پیش کی گئی دستاویزات نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

کاغذات پیمرا کے 7 عہدیداروں (ایک ایگزیکٹو ممبر اور 6 ڈائریکٹر جنرلز)، وزارت اطلاعات اور 7 افسران کے خلاف شکایت کا آغاز کرنے والے پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل نے جمع کرائے ہیں۔

اس معاملے میں شکایت کنندہ ڈائریکٹر جنرل حاجی آدم ہیں جنہوں نے وزیر اعظم سے اشفاق جمانی اور ڈائریکٹر جنرل سردار عرفان اشرف خان، مختار احمد، محمد فاروق، جاوید اقبال، سہیل آصف علی اور وکیل خان کو پیمرا کے ایگزیکٹو ممبرز میں شامل کرنے کے خلاف تحقیقات کی درخواست کی۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ اشفاق جمانی، عرفان اشرف خان اور مختار احمد کو ابتدائی طور پر 2002 میں 2 سال کے کانٹریکٹ پر مقرر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس مدت کے بعد بھی پیمرا میں کام جاری رکھا اور انہیں ریگولر پوسٹ کے خلاف گریڈ 20 میں ترقی دی گئی۔

انہوں نے الزام لگایا گیا کہ محمد فاروق کو ابتدائی طور پر اس پوسٹ کے خلاف گریڈ 17 میں اسسٹنٹ جنرل منیجر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جس کی کبھی تشہیر نہیں کی گئی تھی، ان کی عمر اس پوسٹ کے لیے زیادہ تھی اور ان کے پاس مطلوبہ تجربہ بھی نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے پیمرا کا لائسنس معطلی کا اختیار کالعدم قرار دے دیا

شکایت کنندہ کے مطابق جاوید اقبال کو ابتدائی طور پر اکتوبر 2003 میں مبینہ طور پر بنیادی مطلوبہ قابلیت اور عمر کی حد اور تجربے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈپٹی جنرل منیجر مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح سہیل آصف کو جولائی 2009 میں ڈیپوٹیشن کے ذریعے پیمرا میں جنرل منیجر کے طور پر شامل کیا گیا تھا لیکن ان کے پاس مطلوبہ تجربہ نہیں تھا، انہیں بالآخر پیمرا میں شامل کیا گیا اور سہیل آصف کو سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے واپس نہیں ہٹایا گیا۔

شکایت کنندہ نے اسی طرح کے الزامات ایک اور ڈائریکٹر جنرل وکیل خان کے معاملے میں بھی لگائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان افراد کو نہ صرف غیر قانونی طور پر نوکری پر رکھا گیا اور ساتھ ہی ترقی بھی دی گئی بلکہ ستم ظریفی یہ کہ وہ اتھارٹی کے باقاعدہ ملازم ہیں۔

عدالت کے ریکارڈ کے مطابق اشفاق جمانی 5 لاکھ 550 روپے، اشرف خان 5 لاکھ 75 ہزار 749 روپے، مختار احمد 7 لاکھ 35 ہزار 237 روپے، جاوید اقبال 4 لاکھ 41 ہزار 998 روپے اور وکیل خان 4 لاکھ 22 ہزار 261 روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'دل ناامید تو نہیں' کو پیمرا کے نوٹس پر عمیر رانا کا ردعمل

وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) نے گزشتہ برس 11 نومبر کو وزارت اطلاعات سے کہا تھا کہ ’اس معاملے کی جانچ کریں اور 15 دن کے اندر دفتر کو رپورٹ پیش کریں‘۔

اس کے بعد وزارت نے 17 جون کو ایک 4 رکنی ٹیم تشکیل دی جس میں ایڈیشنل سیکریٹری (انفارمیشن)، جوائنٹ سیکریٹری ڈائریکٹر جنرل (سائبر کرائمز ونگ) اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو شامل کیا گیا تاکہ ’غیر قانونی تقرر‘ کی تحقیقات کی جا سکے۔

پیمرا افسران کا مؤقف

تاہم اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کے بعد پی ایم او نے رواں سال 24 مئی کو وزارت اطلاعات کو ایک یاد دہانی بھیجی جس میں کہا گیا کہ ’رپورٹ کا انتظار ہے، درخواست کی جاتی ہے کہ اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے‘۔

پیمرا کے 7 اعلیٰ افسران نے انکوائری کمیٹی کے قیام کے لیے وزارت اطلاعات کے نوٹی فکیشن کو چیلنج کیا ہے۔

ان افسران نے ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا کہ پیمرا آرڈیننس 2007 کے تحت وزارت اطلاعات کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے۔

اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 5 کا حوالہ دیا جو ریگولیٹر کی خود مختاری کو یقینی بناتا ہے۔

7 افسران کا مؤقف ہے کہ ’وفاقی حکومت صرف پالیسی پر غور کرنے کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہے، جبکہ دفتری احکامات اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سروس ریگولیشن 7 (1) کے تحت یہ واضح ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات پیمرا حکام کو کوئی حکم نہیں دے سکتا اور وہ نہ انہیں رپورٹ کرتے ہیں اور نہ ہی وزارت اطلاعات کی ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں‘۔

پیمرا کے 7 عہدیداروں کی درخواست کے تحریری جواب میں وزارت اطلاعات نے ان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رولز آف بزنس 1973 کے رول 13 (1) میں واضح طور پر اطلاعات و نشریات ڈویژن کے انتظامی اختیار کا ذکر ہے۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے 'سما ٹی وی' کے شیئرز منتقل کرنے کی منظوری دے دی

وزارت کا مؤقف

وزارت کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ ’پیمرا خود ہی وفاقی حکومت کی جانب سے سیکریٹری کے ذریعے معلومات اور نشریات کے لیے انتظام کرے'۔

جواب میں کہا گیا کہ ’وہ افسران جن کے تقرر، ریگولرائزیشن اور ترقیاں مشکوک تھیں اور انہیں کمیٹی کی تفتیش اور انکوائری کے ذریعے جانچ پڑتال کرنی پڑی، انہوں نے اصرار کیا تھا کہ ان کے مبینہ غیر قانونی تقرر، ریگولرائزیشن اور پروموشن کا معاملہ پہلے ہی طے پاگیا ہے‘۔

وزارت اطلاعات نے پیمرا کا مطالبہ بلاجواز قرار دیا۔

ابتدائی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے حکم امتناعی جاری کیا اور سماعت کی اگلی تاریخ 17 نومبر مقرر کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں